عادل فراز

آخر کار !بابری مسجدانہدام معاملے میں۲۸ سال کی سماعت اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی جانچ کے بعد لکھنؤ کی سی بی آئی عدالت کو ایک بھی مجرم نہیں ملا۔سی بی آئی عدالت نے سبھی زندہ۳۲ ملزمان بشمول اڈوانی ،ونے کٹیار،مرلی منوہر جوشی،اوما بھارتی ،ویدانتی کو باعزت بری کردیا ۔عدالت نے کہا کہ صرف جائے وقوع پر کسی کی موجودگی اسے مجرم قرار نہیں دے سکتی۔مگر عدالت نے یہ نہیں بتایاکہ جائے وقوع پر اتنے با اثر اور سماجی و سیاسی افراد کی موجودگی کی وجہ کیا تھی؟ آخر ان افراد کی ایودھیا میں موجودگی نے کیا تشویش ناک صورتحال پیداکی اور اس کے نتائج کیا ہوئے؟۔ان کی موجودگی امن و شانتی کے لئے تھی یا پھر یہ لوگ بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر چاہتےتھے؟۔اگربابری مسجد کی شہادت میں انکی موجودگی کا کوئی دخل نہیں تھا تو پھریہ لوگ وہاں کس لئے جمع ہوئے تھے؟ کیا ان افراد کی ایودھیا میں موجودگی بھی کسی اتفاق کا نتیجہ تھی،جس طرح ’بھیڑ کے اچانک ردعمل کے نتیجے میں مسجد شہید کردی گئی‘؟۔عدالت کے مطابق ملزمین کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ بابری مسجد منہدم کرنے والوں کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ تھا۔تو پھر رام بھکتوں کا جم غفیر کس کی دعوت پر ایودھیا پہونچا تھا؟کیا یہ جم غفیر کسی تنظیم ،ادارے اور فرد کی دعوت کے بغیر وہاں موجود تھا؟۔اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی،اما بھارتی اور دیگر تمام لیڈران اور مذہبی رہنما کس کی دعوت پر ایودھیا پہونچے تھے؟ یا ان لیڈران کا ایودھیا پہونچنا بھی اتفاقی معاملہ تھا؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جو تشنۂ جواب ہیں۔


چونکہ سی بی آئی کی ٹیم عدالت کے سامنے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی اور جو ثبوت پیش کئے گئے وہ ناکافی تھے ،لہذا عدالت نے تمام ملزمین کو باعزت بری کردیا۔جسٹس سریندر کمار یادو نے فیصلے سناتے وقت کہاکہ مرکزی تفتیشی ایجنسیوں نے جو ثبوت عدالت میں پیش کئے وہ ٹیمپرڈ ہیں ،ان سےچھیڑ چھاڑ کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح اخبارات کی رپورٹس اور ویوڈیو فوٹیج کو بھی انہوں نے ناکافی ثبوت قرار دیا۔جسٹس یادو نے کہاکہ سادھوی رتمبھرا کی تقریر کی جو ویڈیو فوٹیج عدالت میں پیش کی گئی وہ سیل بند نہیں تھی، اس لئے انہیں واقعی ثبوت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔جو تصویریں پیش کی گئی تھیں ان کے نگیٹیو عدالت کو فراہم نہیں کرائے گئے ۔عدالت کے اس بیان کے بعدسی بی آئی جانچ کی قلعی بھی کھل جاتی ہے ۔سی بی آئی ہمیشہ سیاسی دبائو اور لاپرواہی کے ساتھ کام کرتی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔چونکہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی ،اور مسجد کی شہادت میں کانگریس کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا،سوال یہ ہے کہ اس وقت کی مرکزی سرکار نے بابری مسجد شہادت کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لئے کیا ضروری اقدامات کئے؟ جن مجرموں کے چہرے تصویروں میں واضح تھے ،کیا انہیں فوری گرفتار کیا گیا؟اگر نہیں تو کیوں؟ کیا عدالت کو کانگریس سرکار کی کوتاہی اور غفلت نظر نہیں آئی؟ کیا عدالت نے بابری مسجد شہادت کے لئے اس وقت کی اترپردیش سرکار اور مرکز کی کانگریس سرکار کو ذمہ دار تسلیم کیاہے؟اگر نہیں تو اس کی وجہ کیاہے؟ سی بی آئی کی جانچ سے اب عوام کااعتبار اٹھتا جارہاہے ۔ہاشم پورہ میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی تحقیقاتی رپورٹ کے سلسلے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا ۔ہاشم پورہ فساد کے سبھی مجرم باعزت بری کردیے گئے تھے اور مسلمانوں کی منظم نسل کشی کو غیر ارادتاََ قتل کے زمرے میں ڈال دیا گیا تھا ۔اگر سی بی آئی سیاسی دبائو سے آزاد ہوکر کام کرے تو اس ملک میں کوئی انصاف سے محروم نہ رہے ۔ہاشم پورہ فساد کی جانچ کو متاثر کرنے اور مجرموں کی گرفتاری نہ ہونے کے لئے بھی اس وقت کی کانگریس سرکار کو بری نہیں کیا جاسکتا۔ہاشم پورہ فساد اور بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔اگر ان کے سیاسی و سماجی پس منظر کا جائزہ لیا جائے گا تو بہت سی کڑیاں آپس میں جڑتی ہوئی نظر آتی ہیں ،جن پر بات کرنے کے لئے یہ کالم ناکافی ہے ۔سی بی آئی کی زیادہ تر تحقیقات کا یہی حال رہاہے اوراس کی جانچ سے اب عوام خاص طورپر اقلیتوں کا اعتبار اٹھتا جارہاہے۔


سپریم کورٹ نے بابری مسجد حق ملکیت کا فیصلہ سناتے وقت کہا تھاکہ مسجد کو گرانے کا عمل غیرقانونی اور مجرمانہ عمل تھا ۔سوال یہ ہے کہ آیا سپریم کورٹ اورملک کی دوسری عدالتیں بابری مسجد کے مجرموں کو تلاش کرنے اور انہیں سزا دینے سے قاصر ہیں؟۔اگر مسجد کو منہدم کرنا ایک مجرمانہ اور غیر قانونی عمل تھا تو پھر بابری مسجد شہادت کے مجرم کہاں ہیں؟ کیا عدالت کو اس وقت کی مرکز میں موجود کانگریس سرکار اور اترپردیش سرکار کا بدیہی جرم نظر نہیں آیا؟۔موقع پر موجود پولیس کے کردار کی جانچ کس ایجنسی نے کی ہے؟ آیا پولیس نے واقعی مجرموں کی نشاندہی اور ان کی گرفتاری میں اپنا کلیدی کردار ادا کیاتھا یا نہیں؟۔عدالت بری ہونے والے ملزمین کے ان بیانات کو کس نظر سے دیکھتی ہے جن میں وہ عدالت کےباہر میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہی بابری مسجد کو منہدم کیا تھااور انہیں اس پر فخر ہے ۔کیا ملزمین کے ان بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؟ یا ہم یہ سمجھیں کہ عدالت بہری ہوچکی ہے ؟۔ہمیں آج بھی ملک کی عدالتوں پر یقین ہے مگر ججوں کے ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے کی لالچ نے انہیں انصاف سے سمجھوتے پر مجبور کردیاہے۔جب تک یہ لالچ موجود رہے گی انصاف سے اسی طرح کمپرومائز ہوتا رہے گا۔


حیرت تو یہ ہے کہ جسٹس یادو نے رام مندر تحریک کے متحرک کردار اشوک سنگھل کی جم کر تعریف کی اور کہاکہ اشوک سنگھل مسجد کے تحفظ کے لئے کوشاں تھے کیونکہ وہاں بھگوان کی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔اگر اشوک سنگھل جیسا بااثر لیڈر بابری مسجد کی شہادت پررضامند نہ ہوتا تو وہاں موجود بھیڑ میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ اشوک سنگھل کے فیصلے کے خلاف جاسکے ۔آخر عدالت کو اشوک سنگھل کی منظم تحریک اور ان کا بااثر کردار کیوں نظر نہیں آیا؟۔ٹھیک اسی طرح جس طرح اڈوانی کی رتھ یاترا کے اثرات اور بابری مسجد کی شہادت میں ان کے کردار سے چشم پوشی کی گئی ۔


بہرحال!بابری مسجد کی زمین پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد رام مندر تعمیر ہورہاہے ،جبکہ سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا تھاکہ مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرنے کے شواہد موجود نہیں ہیں ،اس کے باوجود سپریم کورٹ نے ہندو مسلم کے درمیان موجود صدیوں پرانے اس تنازعہ کو ختم کردیا تھا ۔یہ الگ بات کہ فیصلہ سنانے کے بعد ریٹائر ہوئے جسٹس رنجن گوگوئی کو اس کا سیاسی فائدہ حاصل ہوا اور انہیں راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل ہوگئی۔امید کرتے ہیں کہ جسٹس یادو جو فیصلہ سنانے کے بعد ریٹائر ہوگئے ہیں،کوبھی اس فیصلے کا بھرپور سیاسی فائدہ حاصل ہوگا ۔مگر ملک کی اقلیتوں کا اعتبار عدالت سے اٹھتا جارہاہے ،اس اعتبار کی بحالی کے لئے کوئی فکر مند ہے ؟ملک کے مسلمانوں کو بھی انصاف کے حصول اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ازسرنو غورکرنا ہوگا ۔موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہیں اور انہیں اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔