ادے پور فائلز ۔۔۔کردارکشی اوردل آزاری کا نیاکھیل
جاویدقمر

کچھ لوگوں نے ادے پورفائلز نامی ایک فلم بنائی ہے جس کا ٹریلرریلیز ہوگیاہے ، اس گھناؤنی اوردل آزارفلم کو سینسربورڈنے پاس بھی کردیاہے ، اور11جولائی کو اس کی نمائش بھی ہونے والی ہے ، 2022میں ایک شخص کے قتل کو موضوع بناکر فلم تیارکی گئی ہے ، جو جھوٹ کا ایک پلندہ ہی نہیں نفرت کے باردسے بھراہوا ایک بم ہے ، جو ملک کے امن وامان اورفرقہ وارانہ یکجہتی کو تباہ وبربادکرسکتاہے ، 26جون 2025کو اس کا جو ٹریلر جاری کیاگیاہے وہ ایسے مکالموں اورمناظرسے بھراہواہے جس نے ماضی قریب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثرکیاہے اوراس کے نتیجہ میں ہی ادے پورکاوہ افسوسناک واقعہ رونماہوا جس پر یہ پوری فلم تیارکی گئی ہے ، اس میں عدالتی مناظر، ایک موجودہ وزیراعلیٰ کے ذریعہ امہاۃ المؤمین حضرت عائشہؓ کی شان میں گستاخی کرنے کی حمایت میں دیئے گئے بیان اورخودنوپورشرماکے وہ دل آزاربیانات شامل ہیں جن کی وجہ سے ملک میں امن وامان کی فضاخراب ہوئی اورجگہ جگہ فرقہ وارانہ تشددکے واقعات رونماہوئے تھے ۔اس ٹریلرکو دیکھنے بھرسے یہ واضح ہوجاتاہے کہ فلم کا مقصدایک مخصوص طبقہ کو منفی اورمتعصبانہ اندازمیں پیش کرناہے ، ایک مخصوص مذہبی طبقہ کو ہی نہیں بلکہ اس کی پوری قیادت کو ایک ہی رنگ میں دکھانے کی دانستہ سازش کی گئی ہے ، یہاں تک کہ مسلم علماء کو کم عمر بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرتے ہوئے بھی دکھایاگیاہے ، فن اوراظہاررائے کی آزادی کے نام پر یہ ایک ایسی گھناؤنی حرکت ہے کہ اس کی جس قدربھی مذمت کی جائے کم ہے حیرت اورافسوس کی بات تویہ ہے کہ سینسربورڈنے اپنے تمام اصول وضوابط کو طاق پر رکھ کر نمائش کے لئے اس فلم کو منظوری بھی دیدی ایساکرکے سینسربورڈنے 1952 کے سنیماٹوگراف ایکٹ کی دفعہ 5Bاوراس کے تحت 1991میں فلموں کی عوامی نمائش کے لئے منظوری کی ہدایات کی صریحاخلاف ورزی کی ہے ، ۔
اس موقع پرہمیں دلیپ کمار کی مشہورزمانہ فلم گنگاجمناکی ریلیز سے جراایک واقعہ یادآرہاہے جس کا ذکر مشہورموسیقار نوشادنے اپنی آپ بیتی میں بھی کیاہے ، فلم کے آخری منظرمیں دلیپ کمارکو جب گولی لگتی ہے تووہ ہے رام کہتے ہیں ، سینسربورڈنے اس پر سخت اعتراض کیا اورکہاکہ جب تک اس منظرکو فلم سے نہیں نکالاجائے گامنظوری نہیں دی جائے گی ، وہ سین فلم کی جان تھا اس لئے فلم کے ہدایت کاراسے نکالنے کے لئے تیارنہ تھے چنانچہ سینسربورڈکے ممبروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ان کا اعتراض درست نہیں ہے ، ڈاکوبھی ایک انسان ہی ہوتاہے تووہ اپنے بھگوان یااللہ کا نام کیوں نہیں لے سکتاہے اس طرح بڑی کوشش کے بعد سینسربورڈنے اس فلم کو نمائش کی اجازت دیدی اس واقعہ سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ تب سینسربورڈکے ممبران کتنی باریکی سے فلموں کا جائزہ لیکر سرٹیفکیٹ جاری کرتے تھے مگر اب حال یہ ہے کہ اوٹ پٹانگ قسم کی فلمیں بن رہی ہیں اورسینسربورڈدھڑادھڑان کی منظوری دیدرہاہے کہانیوں کا جیسے کال پڑگیاہے ، اور2014کے بعدسے توایک مخصوص نظریہ کے ساتھ ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں جن سے ملک میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہواورایک مخصوص فرقہ کے خلاف اکثریت کے ذہنوں میں منافرت پیداہو،ادے پورفائلز بھی ایک ایسی ہی فلم ہے جس میں دانستہ طورپرایک مخصوص فرقہ کی نہ صرف کردارکشی کی گئی ہے بلکہ ان کی مذہبی دل آزاری کے لئے ایسے ایسے مناظررکھے گئے ہیں جو قابل گرفت ہیں یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہاہے جو ایک سیکولراورجمہوری ملک ہے جس کے آئین میں مساوات کو اولیت دیتے ہوئے ہر شہری کو مساوی حقوق دیئے گئے ہیں اوریہ بھی کہاگیا ہے کہ کسی شہری کے ساتھ اس کے رنگ ونسل اورمذہب کی بنیادپر امیتازنہیں برتاجائے گااس سچائی کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی ترددنہیں کہ مذہبی منافرت تواس وقت بھی موجودتھی جب سیکڑوں برس کی غلامی کے بعد ملک آزادہواتھا فرق یہ ہے کہ اس وقت اس کا دائرہ محدودتھا ، مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس میں تیزی سے اضافہ ہوتاگیا ، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آئین کی ہدایات پر ایمانداری سے عمل نہیں ہوا، دھیرے دھیرے فرقہ پرست طاقتوں کو عروج حاصل ہوتاگیا ،اوراب تو ملک کے سارے حکومتی نظام پر ان کا قبضہ ہوچکاہے ، ملک کا میڈیا ایک طرف جہاں مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوادیے رہاہے وہیں دوسری طرف فلموں کو بھی اب اس کے لئے استعمال کیاجانے لگاہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 14،15اور21میں شہریوں کو جوحقوق دیئے گئے ہیں ان کو چھیناجارہاہے ، اوراقلیت اوراکثریت کے درمیان ایک خلیج پیداکی جارہی ہے ، اس سے پہلے عام مسلمان ہی ان کے نشانہ پر تھے ، لیکن اب مذہبی شخصیتوں کو بھی نشانے بنانے کا نیاکھیل شروع ہوگیاہے ،فلم میں دنیا کی ممتازاورمحبوب درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے تعلق سے نازیباتبصرے کئے گئے ہیں اور مذہبی شخصیات کو نشانہ بنایا گیاہے۔
جمعیۃعلماء ہند کے پلیٹ فارم سے مولانا سیدارشدمدنی جو کچھ کررہے ہیں وہ کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے ، جمعیۃعلماء ہند ہمیشہ انسانیت کی بنیادپر مذہب سے بالاترہوکر اپنی فلاحی اورامدادی سرگرمیاں انجام دیتی آئی ہے ، یہاں تک کہ اس کی جانب سے ہر سال دوکروڑروپے سے زیادہ کے جو سالانہ تعلیمی وظائف جاری ہوتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد غیرمسلم طلبہ کی ہوتی ہے ، ان سب کے باوجود مولانا مدنی فرقہ پرستوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں ، اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتارکئے گئے بے گناہ نوجوانوں کے مقدمات لڑرہے ہیں اس سچائی سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتاکہ وہ ظلم ناانصافی عدم مساوات اورامیتازکے خلاف ایک مضبوط آوازہیں ، اورآج کے حالات میں یہ ایک بڑاجرم ہے ، فلم میں ان کے مصنوعی کردارکو دکھاکر درحقیقت یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا مدنی دہشت گردوں کی مددکررہے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی قانونی مددکے نتیجہ میں اب تک سیکڑوں کی تعدادمیں وہ لوگ عدالتوں سے باعزت رہاہوچکے ہیں جو برسوں سے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے ، ملک کا قانون ہر شہری کو یہ اختیارفراہم کرتاہے کہ وہ انصاف کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائے ، لیکن آج کے ہندوستان میں انصاف کے لئے قانونی جدوجہد کو بھی جرم سمجھاجانے لگاہے ، 2014 میں جو لوگ اقتدارمیں آئے ان کی ترجیحات یکسرمختلف ہیں ، ان کا سیاسی نظریہ ملک کے آئین کے برعکس ہے یہی وجہ ہے کہ اب آئین میں بھی خامیاں نکالی جارہی ہیں ، ہمارے عظیم جمہوری ملک کا نائب صدرآئین کے دیباچہ میں شامل کئے گئے سیکولرازم اورسوشلزم جیسے الفاظ کو ناسورقراردے ڈالتاہے ، حالانکہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہواجب ان الفاظ کو آئین کے دیباچہ سے نکالنے کو لیکر داخل کی گئی ایک پٹیشن پر سپریم کورٹ ایک تاریخی فیصلہ صادرکرچکی ہے ، جس میں اس نے کہا ہے کہ سوشلزم اورسیکولرازم آئین کی روح ہیں اورانہیں آئین سے الگ نہیں کیاجاسکتا، اودے پورفائلز نامی فلم اظہارکی آزادی کے نام پر آئین میں بیان کردہ تکثیری شمولیاتی اورسیکولرہندوستان کے تصورکوردکرتی ہے اورملک کا میڈیا اس کی حمایت کررہاہے ، قابل ذکرہے کہ 1952کے قانون کی دفعہ 5Bکے تحت ایسی کسی بھی فلم کو منظوری نہیں دی جاسکتی جو امن عامہ ، اخلاقیات یا شائستگی کے خلاف ہویاجس میں لوگوں کو جرم پر اکسانے کا امکان ہو، 1991میں فلموں کی منظوری کے ضمن میں جو ہدایات جاری کی گئیں ، ان میں بھی کہاگیاہے کہ کوئی بھی فلم ایسا موادنہ دکھائے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، دقیانوسی ،یا سائنسی اصولوں کے خلاف ہو، یا جس سے قوم دشمن رجحانات کو فروغ ملتاہو، ہمیں نہیں معلوم سینسربورڈکے فاضل ممبران نے ان اصول وضوابط کو پڑھاہے یانہیں لیکن ادے پورفائلس جیسی گھناؤنی اوربکواس فلم کومنظوری دیکر انہوں نے اپنے سیاسی نظریہ کا اظہارضرورکردیاہے ۔ فلم کی نمائش کو رکوانے کے لئے جمعیۃعلماء ہند دہلی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرچکی ہے ، مہارشٹراورگجرات میں جمعیۃعلماء کی ریاستی اکائیوں نے بھی اسے عدالت میں چیلنج کردیاہے ۔ اس تناظرمیں مولانا ارشدمدنی کا ایک بیان بھی حال ہی میں اخبارات میں شائع ہواہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ ملک کے امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو آگ لگانے کے لئے یہ فلم بنائی گئی ہے ، دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ اس پر عدالت کا فیصلہ کیا ہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں










