عادل فراز

اترپردیش سمیت دیگر چار ریاستوں میں انتخابی صور پھونکا جاچکاہے ۔پانچ ریاستوں کے انتخابی عمل میں تمام تر سیاسی توجہات اترپردیش کے انتخابات پر مرکوز ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش ملک کی ایسی بڑی ریاست ہے جس کی سیاسی حکمت عملی ہندوستان کی سیاست کی جہت کو متعین کرتی ہے ۔اترپردیش کے لیے کہاجاتاہے کہ ہندوستان کےا قتدارکا راستہ اسی ریاست سے ہوکر گذرتاہے ،کیونکہ اترپردیش ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے ۔سب سے زیادہ اسمبلی اور لوک سبھا کی نشستیں بھی اسی ریاست میں ہیں ۔ظاہر ہے جو سیاسی جماعت اترپردیش میں برسر اقتدار ہوتی ہے وہ ملک کی سیاست کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اس وقت اترپردیش میں بی جے پی اقتدار میں ہے ۔گذشتہ پانچ سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ نے جس طرح اترپردیش میں حکومت کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔حکومت ہر محاذ پر ناکامی کا شکار رہی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی اپنی پیٹھ آپ تھپتھپاتے رہے ۔انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی جس طرح بی جے پی خیمے میں ہلچل مچی ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ پارٹی کارکنان یوگی آدتیہ ناتھ سے خوش نہیں ہیں ۔یوگی جی کی سیاست کا سارا انحصار ’ٹھوک دو ‘ اور ’نفرت پھیلائو راج کرو‘ کے فارمولےپر ہے ،اس لیے ان کے پاس ریاست کی ترقی کے لیے کوئی مضبوط لایحۂ عمل نہیں ہے ۔ترقیاتی ایجنڈے کے لیے وژن کا ہونا بہت ضروری ہے جو اترپردیش حکومت کے پاس نہیں ہے ۔


اترپردیش کی سیاست ہمیشہ ذات پات اور مذہب کے ارد گرد گھومتی ہے ۔یہ ملک کی تنہا ریاست ہے جہاں ترقیاتی ایجنڈے اور فلاحی امور کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی ۔ہر پارٹی ذات پات اور مذہبی مسائل کو بنیاد بناکراپنا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔خاص طورپر بی جے پی جس کی سیاست کا سارا دارومدار مذہب اور ذات پات پر ٹکاہواہے ،ایک بار پھر 80 بنام 20 فیصد کے مقابلہ کا نعرہ دے چکی ہے ۔بی جے پی کی حکمت عملی برٹش سامراج کی ذہنیت ’بانٹو اور راج کرو‘ سے الگ نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی رہنمائوں کا سارا زور ’تقسیم کی سیاست‘ پر صرف ہوتاہے ۔80 بنام 20 کے مقابلے کا نعرہ دے کر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ صاف کردیا کہ ان کے پاس ترقیاتی ایجنڈے پر بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔وہ ہمیشہ کی طرح نفرت اور تقسیم کی سیاست کا سہارا لے کر اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے ۔بی


جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ اترپردیش کےعوام کو ترقی کے بجائے مذہب اور طبقاتی نظام کی ضرورت ہے اس لیے وہ مذہبی منافرت اور طبقاتی نظام کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ان کے پاس تمام ہندوئوں کے لیے ترقیاتی ایجنڈہ موجود نہیں ہے تو پھر دیگر مذاہب اور قوموں کے لیے وہ کیا کرسکتے ہیں ؟۔مسلمانوں کےلیے تو ان کے پاس نفرت اور ’ٹھوک دو‘ کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔یہ الگ بات کہ آرایس ایس مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ وہ مسلمانوں کے درمیان نفوذ کی کوشش کررہی ہے مگر یہ کوشش صرف مفاد پرستوں اور دلالوں تک سمٹ کر رہ گئی ہے ۔


ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کی سیاست کا شکار رہاہے ۔’بھیڑیے ‘ کا خوف دلاکر اس کے ووٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ہندوستان میں اس سیاست کا فروغ بھی اترپردیش ہی سے ہوا ۔ملائم سنگھ یادو ،مایا وتی ،اور دیگر علاقائی سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کےووٹ کو حاصل کرنے کے لیے ’خوف کی سیاست‘ کا بخوبی استعمال کیا ۔مسلمان ان کے سیاسی دام فریب میں الجھتا چلا گیا اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے لیڈروں کو اپنی فلاح و ترقی کا ضامن سمجھنے لگا ۔ان جماعتوں نے مسلمانوں کا جذباتی ،اقتصادی اور فکری استحصال کیا ۔مسلمانوں کو اپنی پارٹی کا امید وار بناکر یہ پیغام دیا کہ ہم مسلمانوں کے لیے مسیحا ہیں ۔المختصر یہ کہ مسلمان ان جماعتوں پر اتنا منحصر ہوگیاکہ انہیں اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوطی دینے کی پرواہ ہی نہیں رہی ۔وہ صرف ’بھیڑیے ‘ کے خوف سے بچنا چاہتے تھے ۔ایسا ’بھیڑیا ‘ جو ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے درمیان بھی موجود تھا مگر ہرن کی کھال میں ۔آج بھی ہندوستان کے مسلمان کے پاس کوئی بہتر متبادل نہیں ہے ۔اکھلیش یادو اپنی کامیابی کو لے کر اس لیے سب سے زیادہ پر جوش ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اترپردیش کے مسلمان کے پاس ان کے علاوہ دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔یہ صورتحال کسی بھی ملت کے لیے انتہائی تشویش ناک ہوتی ہے ۔مسلمان کو اپنا سیاسی لایحۂ عمل بدلنے کی ضرورت ہے ۔وہ کسی ایک جماعت یا ایک سیاسی رہنما کےساتھ بندھ کر نہیں رہ سکتے ۔ ضروری ہے کہ وہ اپنی سیاسی و سماجی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔اس کےلیے نئی حکمت عملی تیار کی جائے اور ہر سیکولر جماعت کو یہ پیغام دیں کہ وہ اپنے حق اور مفاد کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں ’بھیڑیے ‘ کے خوف کی سیاست میں نہیں ۔


مسلمانوں نے جتنی سیکولر کہے جانے والی پارٹیوں پر بھروسہ کیا اس کے نتائج کیا ہوئے ؟ دہلی میں پہلی بار کیجریوال کو اقتدار کی کرسی تک پہونچانے میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا ،مگر کیجریوال بھی زعفرانی سیاست کا ایک مہرہ ثابت ہوئے۔دہلی فسادات کے موقع پر عام آدمی پارٹی کی دوغلی سیاست نے کیجریوال کے چہر ہ پر پڑی ہوئی سیکولرازم کی نقاب کو الٹ دیا ۔دوالی کے موقع پردہلی میں ایودھیا کی طرز پر رام مندر کی نقل تیار کرائی گئی ،جہاں وزیر اعلیٰ کیجریوال نے دوالی کے روز پوجا ارچنا کرکے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ۔دہلی حکومت کی طرف سے اس کی خوب تشہیر کی گئی تاکہ کیجریوال کو بھی ’ہندتووا‘ سیاست کا مبلغ ثابت کیا جاسکے ۔ظاہرہے کیجریوال ’انّا ہزارے آندولن‘ سے نکلے ہوئے سیاسی لیڈر ہیں ،اس لیے انہیں زعفرانی ایجنڈے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔


مظفر نگر فساد کے وقت سماج وادی پارٹی کی سرکار تھی ۔فساد کے اصلی مجرمین پر ایف آئی آر کے علاوہ کوئی اہم قانونی کاروائی نہیں کی گئی ۔سرکار بدلی تو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تمام مجرموں کے مقدمات کو واپس لے لیا ۔گذشہ پانچ سالوں میں اترپردیش میں متعدد مقامات پر حالات خراب ہوئے مگر اکھلیش یادو ڈرائنگ روم کی سیاست سے باہر نہیں نکلے ۔کیونکہ انہیں معلوم ہے مسلمانوں کے پاس ان کے علاوہ دوسرا متبادل نہیں ہے ۔انائو ریپ کیس سے لیکر ہاتھرس سانحہ تک ہر جگہ سماج وادی پارٹی بیک فُٹ پر نظر آئی ۔اس کے علاوہ اترپردیش میں متعدد مقامات پر دلسوز واقعات رونما ہوئےجہاں اکھلیش یادو منظر سے ندارد رہے۔مایاوتی کی تو بات ہی نہیں ہے کیونکہ انکی سیاسی بساط اترپردیش میں سمٹ چکی ہے اس لیے ان سے مذمتی بیان سے زیادہ کچھ توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔گذشتہ پانچ سالوں میں سماج وادی پارٹی سے زیادہ کانگریس اترپردیش میں متحرک رہی ہے ۔پرینکا گاندھی ہر محاذ پر نفرت کی سیاست کے خلاف کھڑی نظر آئیں ۔ہاتھرس سے لے کر لکھیم پور سانحہ تک ہر جگہ پرینکا گاندھی نے ظلم و ناانصافی کےخلاف زمینی جدوجہد کی ۔مگر مشکل یہ ہے کہ اترپردیش میں کانگریس کی زمینی صورتحال اچھی نہیں ہے ۔ذات پات ،فرقہ پرستی اور مذہب کی سیاست نے اترپردیش کوالگ ہی راہ پر ڈال دیاہے ۔


کانگریس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ رہنمائوں کے درمیان آپسی تال میل کا نہ ہونا بھی ہے ۔کانگریس نے جس طرح اپنی سیاسی حکمت عملی کو بدلا وہ قابل ذکر ہے ۔راہل اور پرینکا گاندھی نوجوان نسل کی طرف مائل ہیں ۔وہ اخبار اور کالم کی سیاست کے بجائے زمینی جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں ۔راہل اور پرینکا نے سوشل میڈیا کو بی جے پی کی طرح ایک ہتھیار کے طورپر بخوبی استعمال کیا۔مگر کانگریس کے دیگر لیڈران اس سیاست میں یقین نہیں رکھتے لہذاکانگریس اعلیٰ قیادت کےساتھ انکی نظریاتی جنگ جاری رہتی ہے ۔ بوڑھے کانگریسی رہنما جو اندر سے مکمل زعفرانی ہیں ،پرینکا گاندھی کی زمینی جدوجہد کے ساتھ نہیں چل سکتے ۔اس کے لیے ضروری ہے کانگریس نوجوانوں کا زمینی کیڈر تیار کرے ۔ نوجوانوں کی جدوجہد کے بغیر کانگریس اترپردیش کے اقتدار کی بازیابی میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔اترپردیش میں کانگریس کو لمبا انتظار کرنا ہوگا اورجہد مسلسل جاری رکھنا ہوگی ۔اترپردیش کے بغیر کانگریس ہندوستان کے اقتدار کا خواب نہیں دیکھ سکتی ،یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے ۔ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو ’شدھی کرن‘ کی راجنیتی جاری رکھنی ہوگی ۔یعنی ایسےافراد سے پارٹی کو پاک کرنا ہوگا جو ہرن کی کھال میں چھپے ہوئے بھیڑیے ہیں ۔جن کی سیاست کانگریس کے بجائے زعفرانی طاقتوں کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے ۔