عادل فراز


ہندوستان میں کورونا کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔بعض ریاستوں کی زمینی صورتحال ابتر ہے اور لاشیں ندیوں میں بہتی نظر آرہی ہیں ۔جن ریاستوں میں انتخابات منعقد ہوئے ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔وہاں انفیکشن تیزی سے پھیل رہاہے اور لوگ مررہے ہیں ۔پنچایت الیکشن کے بعد دیہاتوں میں بھی کوروناکے واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔چونکہ دیہاتوں اور قصبوں میں مناسب طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے اکثر مریض شہروں کے اسپتالوں میں بھرتی ہورہے ہیں ،اس لیے اسپتالوں میں بھی حالات ناگفتہ بہ ہیں ۔کوروناسے ہونے والی اموات میں بھی دن بہ دن اضافہ ہورہاہے ۔ مرنےوالوں میں بڑی تعداد دیہی باشندوں کی ہے ۔اگر پنچایت انتخابات ملتوی کردیے جاتے تو دیہی علاقوں میں کورونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکا جاسکتا تھا ۔کیونکہ دیہات کے افراد کورونا پروٹوکول کی بالکل پرواہ نہیں کرتے اور ان کے یہاں احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں بیداری کی کمی ہے ،اس لیے پنچایت انتخابات میں ان کی بداحتیاطی نے حالات کو بے قابو کردیا ۔اس وقت دیہاتوں کے حالات یہ ہیں کہ تقریباََ ہر گھر میں مریض موجود ہیں ۔انہیں خود یہ علم نہیں ہے کہ ان کے درمیان موجود مریض عام بخار کا شکار ہے یا کورونا انفیکشن کی زد میں ہے ۔کیونکہ دیہاتوں اور قصبوں میں ٹیسٹنگ کی کمی ہے۔البتہ سرکار مطمئن ہے کیونکہ اس کے اعدادوشمار کے مطابق حالات قابو میں ہیں اور دیہی علاقوں تک امداد پہونچائی جارہی ہے جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں اس وقت راشن سے زیادہ اچھے ڈاکٹروں اور بہتر دوائیوں کی ضرورت ہے ۔


کئی دیہاتوں میں پردھانی کے امیدوار کورونا کی زد میں آکر مرچکے ہیں ۔ظاہر ہے انتخابی مہم کے دوران ہوئی بداحتیاطی نے ان کی جان لے لی ۔اسی طرح الیکشن کے بعد گھر گھر بخار کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے ۔ہماری اطلاع کے مطابق بعض افراد معمولی بخار کی زد میں آکر چل بسے ۔یعنی انہیں علم ہی نہیں ہواکہ وہ کورونا جیسی مہلک وبا کی زد میں ہیں ۔یوں بھی دیہی علاقوں کے افراد کورونا ٹیسٹنگ سے بہت گھبراتے ہیں ۔ویکسین کے سلسلے میں تو ان کے یہاں بہت سے شکوک و شبہات ہیں جنہیں رفع کرنے کی ضرورت ہے ۔مگر اس سلسلے میں ابھی تک سرکار کی طرف سے کوئی پہل نہیں دیکھی گئی ۔ظاہر ہے جب شہروں میں ویکسین پر لوگوں کا اعتبار قائم نہیں ہوسکاہے تو پھردیہی علاقوں میں جہاں بیداری کی بے انتہا کمی ہے ،وہاں اعتبار قائم کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے ۔


سال گذشتہ دیہی علاقوں میں کورونا کا قطعی خوف نہیں تھا ۔ہم نے خود مشاہدہ کیاہے کہ وہاں کے افراد کورونا کو عالمی افواہ سمجھ کر کس طرح مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ان کے نزدیک کورونا سرکاروں کا پروپیگنڈہ تھا جس کی زمینی حقیقت سے وہ لاعلم تھے ۔اگر ملک میں لاک ڈائون کا نفاذ نہ ہوا ہوتا تو انہیں کورونا کی بالکل پرواہ نہیں ہوتی۔وہ اپنے تمام امور اسی طرح انجام دیتے جس طرح دیتے آئے ہیں ۔مگر لاک ڈائون نے ان کے نظام زندگی کو بھی متاثر کیا۔وہ بھی روزگار کے مسائل سے دوچار ہوئے ۔کسانوں کو اپنی فصلوں کی مناسب قیمت نہیں ملی ۔کسانوں سے پولیس نے بیجا وصولی کی ،اس کے بعد انہیں منڈیوں تک جانے دیا گیا ۔مزدوروں کی عدم دستیابی کی صورت میں بعض کسانوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں یا پھر وہ خود مزدور کی طرح کام کرنے پر مجبور ہوئے ۔اس کے باوجود انہیں کورونا کا کوئی خوف نہیں تھا ۔وہ ہمیشہ کورونا کو مذاق سمجھ کر بیڑی کے دھوئیں کی طرح ہوا میں اڑا دیتےتھے ۔مگر جب امسال ان کے علاقے میں کورونا بے قابو ہوا تو شہروں سے زیادہ خوف دیہی علاقوں میں دیکھا گیا ۔کیونکہ ان کے پاس نہ تو اچھے ڈاکٹرموجود ہیں جن سے طبی مشورہ کیا جاسکے اور نہ بہتر دوائیاں دستیاب ہیں ۔جو ڈاکٹر ان کی دسترس میں ہیں ان کی اکثریت لٹیروں کی ہے ۔وہ ’آپدا میں اوسر‘ تلاش کررہے ہیں اوربغیر مرض کی تشخیص کے دوائیاں دی جارہی ہیں ۔ڈاکٹروں کی اکثریت سیدھے سادے افراد کو ٹھگ رہی ہے اور انہیں دوا کے نام پر زہر دیا جارہاہے ۔قصبوں میں سرکاری اسپتالوں کی صورتحال پہلے ہی بہتر نہیں تھی ،اس وبائی عہد میں تو وہاں کے حالات مزید خراب ہیں ۔دیہی علاقوں میں اموات کا سلسلہ بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہاہے مگر سرکار صرف اعدادوشمار کو مینج کرنے میں مصروف ہے ۔بہتر ہوتا اگر دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھیجی جاتیں تاکہ انہیں بہتر علاج مہیا کرایا جاسکے۔مگر اب تک اس راہ میں پیش رفت کی کوئی خبر نہیں ہے ۔


حال ہی میں وزیر اعظم مودی نے افسران کے ساتھ اعلیٰ سطحی ورچول میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ریاستیں کورونا کی پردہ پوشی کے بجائے دیہی علاقوں میں پھیل رہے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش کریں ۔انہوں نے افسران کو دیہات میں ٹیسٹنگ بڑھانے پر بھی زور دیا ۔ظاہر ہے وزیر اعظم کی یہ فکر مندی زمینی حقائق کا نتیجہ ہے ۔اگر پہلے ہی دیہاتوں،قصبوں اور چھوٹے شہروں کی فکر کی جاتی تو نوبت یہاں تک نہیں پونچتی ۔مگر پنچایت انتخابات اور بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں انتخابی سرگرمیوں نے کورونا کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ۔اس وقت دیہی علاقوں اور قصبوں میں بہتر طبی سہولیات کی سخت ضرورت ہے ۔سرکار کو چاہیے کہ وہاں اچھے ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھیجی جائیں جو ٹیسٹنگ کے ساتھ ان کا بہتر علاج کرسکیں ۔کورونا سے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں بھی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔آج بھی اکثر دیہاتوں میں ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہاہے کیونکہ انہیں اس کے فوائد کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے ۔دیہاتوں میں سینیٹائزر بھی موجود نہیں ہے اور نہ ان محلوں کو سینیٹائز کیاجارہاہے جہاں کورونا کے مریض پائے جارہے ہیں ۔سنیٹائزر کی بوتلیں وہ کیسے خریدیں گے جن کی روزمرہ کی دہاڑی بھی بند ہے ۔ایک سینیٹائز کی معمولی سی بوتل بھی پچاس روپے سے کم نہیں ہے جبکہ مزدور اور کسان طبقے کے نزدیک پچاس روپے کی بڑی قیمت ہے ۔آج ان کے پاس کھانے کے لیے راشن کی کمی ہے ،کام کاج بند ہوچکے ہیں ،جیب میں پیسہ نہیں ہے ،تو پھر وہ سینیٹائز ر کی بوتلیں کہاں سے خرید یں گے ؟۔ ایسے علاقوں میں سرکار کو پردھانوں کے ذریعہ مفت سینیٹائزر کی بوتلیں بھی تقسیم کرانی چاہئیں۔
بہرکیف! دیہاتوں کی موجودہ ابتر صورتحال ان کی عدم بیداری کا نتیجہ تو ہے ہی مگر سرکاروں کی عدم توجہی اور غفلت کاانجام بھی ہے ۔جس وقت پنچایت انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت کورونا تیزی سے پھیل رہا تھا ۔انتخابات سے پہلےدیہی علاقوں میں کورونا کے واقعات نہیں تھے ۔اگر انتخابات کو ملتوی کردیا جاتا تو آج دیہی علاقوں کے باشندوں کو اپنی قیمتی جانیں نہ گنوانی پڑتیں ۔اب سرکار کو دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ورنہ حالات دن بہ دن بے قابو ہوتے جائیں گے ۔ان علاقوں کے لیے سب سے پہلے مناسب طبی سہولیات کا بندوبست کیا جائے اور ان کی جانوںکے تحفظ کی کوشش کی جائے ۔فقط افسران کے ساتھ آن لائن اجلاس اورصرف کاغذی کاروائی کے ذریعہ کورونا پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔اس کے لیے سرکاری افسران اور میڈیکل ٹیموں کو عملی طورپرمیدان میں آنا ہوگا ۔