انتظامیہ کا مظاہرہ واحتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک: مولانا ارشدمدنی


نئی دہلی: مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مدنی ہال ۱؎ بہادر شاہ ظفر مارگ میں جمعیۃ علماء ہند کی اس ٹرم کی مجلس عاملہ کا ایک انتہائی اہم پہلا اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس میں صدر محترم مولانا ارشد مدنی نے بمشورہ عاملہ جاری ٹرم کے لئے مفتی سید معصوم ثاقب کو ناظم عمومی نامزد کیا، اجلاس کے شرکاء نے ملک کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن وقانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا، اجلاس میں کہاگیا کہ ملک کے امن واتحاد اور یکجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، حکمرانوں کے ذریعہ آئین وقانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو تار تار کرسکتی ہے، اس موقع پر اجلاس میں اتفاق رائے سے جو تجاویز منظور ہوئیں ان میں سے دو اہم تجاویز میں کہا گیا کہ جناب نبی کریم ﷺ کی شان میں جن لوگوں نے گستاخی کی جرأت کی ہے ان کی معطلی ہی کافی نہیں بلکہ انہیں فوری گرفتار کر کے قانون کے مطابق ایسی سخت سزادی جانی چاہئے، جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔

دوسری اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تجویز میں کہا گیا ہے کہ ترمیم یاتبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کیا جانا چاہئے، جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“ سیکشن 4 (2) میں کہا گیا ہے کہ اگر 15/ اگست 1947ء میں موجودکسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تبدیلی سے متعلق کوئی مقدمہ، اپیل یا کوئی کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی میں پہلے سے زیرالتواہے تو وہ منسوخ ہو جائے گی اور اس طرح کے معاملہ میں کوئی مقدمہ،اپیل یا دیگر کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے اس کے بعد پیش نہیں ہوگی، اسی لئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل ہے جمعیۃ علماء ہند اس میں مداخلت کار بنی ہے۔


مجلس عاملہ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ عاملہ کا یہ اجلاس ایک ایسے نازک وقت میں منعقد ہو رہا ہے کہ جب پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جارہے ہیں یہاں تک کہ ان کے ذریعہ کئے جانے والے پرامن احتجاج کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کر کے قانون کی آڑ میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، مولانامدنی نے کہا کہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی شان میں دانستہ گستاخی کی گئی اور ان گستاخوں کی گرفتاری کے مطالبہ کو لیکر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی گئیں، یہاں تک کہ اس کی پاداش میں بہت سے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوا دیا گیا، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں، اور ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں، یعنی جو کام عدالتوں کا تھا اب وہ حکومتیں کر رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ اب ہندوستان میں قانون کی حکمرانی کا دور ختم ہوگیا ہے، سزا وجزا کے تمام اختیارات حکومتوں نے اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں، ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ہی قانون ہیں، ایسا لگتا ہے اب نہ ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے اورنہ جج درکار ہیں، انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دوپیمانہ ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم؛ لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پر اترکر پرتشدد کارروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن پھونک ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا، انتظامیہ کا مظاہر ہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔


انہوں نے کہاکہ فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، احتجاجیوں نے جگہ جگہ ٹرینوں میں آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا پولس پر پتھر بازی کی تو وہی پولس جو مسلمانوں کے خلاف  تمام حدیں توڑ دیتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی اس پرتشدد احتجاج کو لیکر جو لوگ گرفتار کئے گئے ہیں ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی گئی ہیں کہ تھانہ سے ہی ان کی ضمانت ہو سکتی ہیں، اترپردیش پولس کا ایک بڑا افسر ان واقعات پر یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے ہی بچے ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے، مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اپنے رسولؐ  کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے کیا دشمن کے بچے تھے؟ انہوں نے کہا کہ اب اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے،ایک بھارت شریشٹھ بھارت اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والوں نے قانون کو بھی مذہبی رنگ دیدیا ہے، اکثریت کے لئے قانون الگ ہے اور اقلیت کے لئے الگ، سوال یہ ہے کہ اب اگر ملک میں پر امن احتجاج کرنا جرم ہے تو جن لوگوں نے پرتشدد احتجاج کیا ان کے گھروں کو ابتک مسمار کیوں نہیں کیا گیا؟ مولانا مدنی نے آگے کہا کہ گستاخی کرنے والے لیڈروں کی معطلی کا جو خط بی جے پی کے دفتر کی طرف سے لکھا گیا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ پارٹی ملک کے آئین پر عمل کرتی ہے اور تمام مذاہب کے تئیں احترام کا جذبہ رکھتی ہے، اگر ایسا ہے تو گستاخی کرنے والے لیڈر اب تک آزاد کیوں ہیں؟ جو لوگ گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کریں انہیں سنگین دفعات لگا کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے اور جن لوگوں کی دریدہ دہنی کی وجہ سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے وہ اب بھی آزاد ہیں، کیا قانون کے دوہرے استعمال کی اس سے بدترین کوئی دوسری مثال ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے وطن کی مٹی سے محبت ہے، ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی ہے اس لئے ہم مسلسل یہ انتباہ کرتے آئے ہیں کہ ملک کو نفرت کی یہ سیاست تباہ وبرباد کردیگی، اکثریت اور اقلیت میں تفریق کی جائے گی، اکثریت کی بالادستی کے تلے اقلیتوں کو دبا دینے کی کوشش ہوگی تو یاد رکھیں یہ ملک کبھی ترقی کے راستہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا، مولا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف نوجوانوں کا ملک بھر میں پرتشدد احتجاج حکومت کے لئے ایک انتباہ ہے، اگر ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچا گیا، روزگار کے وسائل نہیں پیدا کئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک کے تمام نوجوان سڑکوں پر ہوں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ مذہب کا نشہ پلاکر عوام کو بہت دنوں تک بنیادی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا روٹی کپڑا اور مکان انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے جسکو نظر انداز کیا جانا ملک کی فلاح وبہبود کے لئے اچھی علامت نہیں اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے مذہب اور نفرت کی سیاست ترک کر کے عوام بالخصوص نو جوان نسل کے بہتر مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے ورنہ وہی سب کچھ یہاں بھی شروع ہو سکتا ہے جس کا نظارہ پوری دنیا سری لنکا میں کر چکی ہے۔ مولانا مدنی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا حل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ملک میں نفرت اور مذہبی شدت پسندی کا جو طوفان برپا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جو نفرت سے بھری شرانگیز بحثیں ہوتی ہیں اس پر پابندی لگائی جائے اس سلسلہ میں حکومت کو بہت پہلے سے سخت موقف اختیار کرنا چاہئے تھا لیکن ہمارے تمام تر مطالبوں کے باوجود حکومت نے ایسا نہیں کیا؛ چنانچہ مجبور ہو کر جمعیۃ علماء ہند کو اس کے خلاف عدالت میں پٹیشن داخل کرنی پڑی، اس پٹیشن پر اب تک 13/ سماعتیں ہو چکی ہیں؛ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ اس پر اب تک حتمی بحث نہیں ہوسکی ہے انہوں نے کہا کہ ملک سے اس وقت تک نفرت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا جب تک ان متعصب ٹی وی چینلوں پر ہونے والی یکطرفہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ اور بحثوں پر پابندی نہیں لگائی جاتی انہوں نے آخر میں کہا کہ اب پانی سر سے اوپر ہوتا جارہا ہے، اگر اب بھی حکومت نے اس تعلق سے کچھ نہیں کیا تو ملک میں امن واتحاد خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند سیاسی جماعتوں، ملک کے دانشوروں، سماجی تنظیمیں اور مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ اپنے اثرات کا استعمال کر کے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول کو بچانے کی کوشش کریں جس نے ملک کی یکجہتی، آئین ودستور اور سلامتی کے شدید خطرات پیدا کردیئے ہیں۔


قابل ذکر ہے کہ مجلس عاملہ میں دونوں جمعیتوں کے اتحاد کے سلسلہ میں بھی بحث ہوئی موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہر ممبر کو آزادی کے ساتھ گفتگو کی اجازت دی گئی کم وبیش ایک گھنٹہ گفتگو کے بعد متفقہ طور پر تمام ارکان نے صدرجمعیۃ علماء مولانا ارشد مدنی کو دونوں جمعیتوں کے اتحاد کے عمل کو آخری شکل دینے کا مکمل اختیار دیدیا، مولانا مدنی نے کہا کہ خدا کی ذات سے توقع ہے کہ ان شاء اللہ اتحاد کا عمل خیر وبرکت کے ساتھ سامنے آئیگا، اور پہلے سے زیادہ خدمت خلق کے لئے جمعیۃ علماء کے خدام اتحاد واتفاق کے ساتھ کام کر سکیں گے۔


اجلاس میں صدر جمعیۃ علماء ہند، ناظم عمومی مفتی سید معصوم ثاقب اور ارکان میں مولانا عبد العلیم فاروقی لکھنو، جناب گلزار احمد اعظمی سکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء مہاراشٹر، مفتی غیاث الدین احمدرحمانی، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مشتاق احمد عنفر، مولانا عبد الہادی پرتاپ گڑھی، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، فضل الرحمن قاسمی، مولانا عبد الرشید قاسمی، مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی، مولانا قاری شمس الدین، حاجی سلامت اللہ دہلی، مفتی اشفاق احمد سرائے، مولانا بدر احمد مجیبی، مفتی عبد القیوم منصوری، جناب فضیل احمد ایوبی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کے علاوہ مولانا حلیم اللہ قاسمی، مولانا عبد القیوم قاسمی، مفتی محمد احمد، مفتی محمد راشد، مولانا محمد مسلم قاسمی، جناب شاہد ندیم ایڈوکیٹ، مفتی حبیب اللہ قاسمی راجستھان، مولانا محمد خالد قاسمی اور مولانا مکرم الحسینی بیگوسرائے بطور مدعوخصوصی شریک ہوئے، اجلاس کی کارروائی صدر محترم جمعیۃ علماء ہند کی دعا پر اختتام پذیر ہوئی۔