یوم وفات کے موقع پر محبان اردو کی جانب سے موتی محل ہوٹل حضرت گنج میں ایک نشست

لکھنؤ : مرزا اسد اللہ خاں غالب کے آج ۱۵؍ فروری یوم وفات کے موقع پر نارتھ انڈیا جنرلسٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے موتی محل ہوٹل حضرت میں ایک شعری و ادبی نشست کاانعقاد ہوا ۔ جس کی صدارت ایس۔ این۔ لال نے کی اور مہمان کی حیثیت سے ڈاکٹر عفت اور سلمیٰ خان نے شرکت کی ۔ نشست کی صدارت کرتے ہوئے ایس۔ این۔ لال نے کہا کہ غالب زبان اورلہجہ کے چابک دست فنکار ہیں ۔ روز مرہ اردو اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جا تی ہے ۔ اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے جو آج بھی اپنی تابندگی اور تازگی سے اردو شاعری و ادب میں بلاشبہ جگمگ ہے ۔ انہوں نے دیگر شعراء کے مقابلہ اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی ۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ جابجا ملتے ہیں ۔ اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے غالب کے شعری اور سوانحی خاکہ کو تاریخ و ادب کے حوالے سے جس قدر قریب سے دیکھا اس میں مجھے غالب ایک عکس میں دکھے وہ خواہ محفل ہو یا تنہائی اور چاہے عملی زندگی ہو ۔ نشست میں مہمان کی حیثیت سے ڈکٹر عفت نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غم اور دکھ کی گھڑی میں غالب کی شاعری ایسا سہارا ہے کہ انہیں پڑھ لینے سے طبیعت میں یک بیک تازگی آنا فطری عمل ہے ۔ جیسا کہ ان کا ایک شعر مجھے زندگی میں ہمیشہ تازگی دیتا ہے ’’ ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے چہرہ پہ رونق : وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے ‘‘ ۔ اسی طرح غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں ا س کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں مزید یہ کہ جو سب سے بڑی اور اہم بات ہے وہ یہ کہ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اور اس کو اپنے پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں ۔ غالب کے یوم وفات پر اس نشست میں موجود التمش اعظمی نے غالب کے چند اشعار اپنے تمثیلی انداز میں بہت خوبصورت طریقہ سے پیش کیا اور موجود سامعین نے انھیں خوب داد و تحسین سے نوازا ۔ اس کے بعد نشست کا اختتام ہوا ۔ اس موقع پر خصوصی شرکاء میں مولانا محمد خالد اعظمی ندوی ، ڈاکٹر مسیح الدین خان ، سلمیٰ خان ، کے علاوہ کئی فنکار آرٹسٹ اور معززین شہر موجود تھے ۔