لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں عظیم دانشور و محقق پروفیسر نیّر مسعود رضوی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی نشست کا انعقاد

لکھنؤ: (ضیاء اللہ صدیقی) یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں آج دوپہرمعروف ادیب، ناقد اور فکشن نگار پروفیسر نیّر مسعود رضوی کے سانحۂ ارتحال پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ مرحوم نے لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں تدریسی فرائض انجام دئیے۔ وہ1988 عیسوی سے لیکر1996 عیسوی تک شعبہ فارسی کے صدر کے عہدے پر بھی فایز رہے۔ ان کے دور صدارت میں شعبہ فارسی نے نمایاں ترقی حاصل کیں۔ اس تعزیتی نشست کی صدارت شعبہ ٔ فارسی کے صدر پروفیسر عارف ایوبی نے کی۔ موصوف نے آنجہانی پروفیسر نیّر مسعود رضوی کی فکشن نگاری پر سیر حاصل گفتگو کی۔ پروفیسر ایوبی نے کہا کہ یوں تو بہت سارے افسانہ نگاروں نے فن افسانہ نگاری کو بلندی عطا کی لیکن جو چیز نیّر مسعود کو دیگر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے افسانے کا علامتی نظام ہے۔ پروفیسر ایوبی نے کہا کہ یہ ان کے لئے خوش نصیبی کی بات تھی کہ انہوں نے پروفیسر نیّر مسعود کے سامنے زانوی تلمّذ تہہ کیا اور ان کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ بقول پروفیسر ایوّبی گرچہ پروفیسر نیّر مسعود طبعاً شاعر نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ شاعروں کی اصلاح کرتے تھے اور ان کو مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔

شعبہ کے استاد پروفیسر عمر کمال الدین نے بھی پروفیسر نیّر مسعود رضوی کی ادبی خدمات اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور انہیں آسمان ادب کا منارۂ نور کہا۔ پروفیسر عمر کمال الدین نے کہا کہ پروفیسر نیّر مسعود کو طالب علم کے اندر چھپی ہوء صلاحیتوں کو جاننے کا بھرپور ملکہ حاصل تھا۔ وہ ایک طالب علم کی صلاحیتوں کے موافق انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے تھے اور ان کی بھرپور رہنمائی کرتے تھے۔ پروفیسر عمر کمال الدین نے مرحوم کو ایک عہد ساز شخصیت قرار دیا۔ انہوں نے اضافہ کیا قدرت نے نیّر مسعود صاحب کو درس و تدریس کا حیرت انگیز فن ودیعت کیا تھا۔ کلاس میں اگر وہ ایک موضوع یا واقعہ کو بیان کرتے تو اس موضوع یا واقعہ کی مکمل تصویرکھینچ دیتے۔

شعبہ کے ایک اور استاد ڈاکٹر سیّد غلام نبی احمد نے بھی اردو اور فارسی ادب میں پروفیسر نیّر مسعود کی گرانقدر خدمات کا جایزہ لیا۔ موصوف نے ان کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح مرحوم نے تحقیق کے شعبے میں ان کی حوصلہ افزاء کی اور پہلی ہی ملاقات میں ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ڈاکٹر غلام نبی احمد نے ان کو ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا اور کہا کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود رہتا تھا۔
ڈاکٹر ارشدالقادری، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی نے بھی آنجہانی پروفیسر نیر مسعود کے تئیں عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی وفات کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا اور شعبے میں موجود طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم پروفیسر نیّر مسعود نے اردو اور فارسی ادب میں جو قابل قدر اثاثہ چھوڑا اس کے ہم پاسدار اور امین ہیں اور ان کی علمی اور تہذیبی وراثت کو آگے لے جانا ہی ان کے تئیں بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
ڈاکٹر شبیب انور علوی نے بھی مرحوم پروفیسرنیّر مسعود کی شخصیت اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اہالیان لکھنؤ کو جن باکمال شخصیات پر ناز ہے اور بجا ناز رہیگا ان میں مرحوم پروفیسر نیّر مسعود رضوی کی ذات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر شبیب انور علوی نے مزید اضافہ کیا کہ پروفیسر نیّر مسعود کی تحریریں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

اس کے علاوہ شعبہ فارسی کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ڈاکٹر سیّد احمد میاں اور ڈاکٹر سیّد محمد میاں زیدی نے بھی پروفیسر نیر مسعود کے سانحہ ارتحال کو اردو اور فارسی ادب کے لئے ایک عظیم خسارہ قرار دیا۔ اس تعزیتی نشست میں اساتذہ کے علاوہ شعبہ کے طلبا نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی جن میں ضیاء اللہ صدیقی ندویؔ،محمّد خبیب، فیروز بخش افروز، محمد راحم، عرشی بانو، عاطفہ جمال، ثنا اظہر، نازیہ جعفری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔