از۔ نرگس یونیتسا

(جرمن سے ترجمہ)

کئی دنوں سے میں سوچ رہی ہوں کہ، شمیم آنٹی اس دنیا سے کیسے جدا ہو سکتی ہیں۔میں تصور کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ یہ دنیا گھومتی ہی رہتی ہے۔اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہے۔اور اس پر نہ میرا بس ہے نہ کسی اور کا۔ یہ تو نظامِ قدرت ہے۔ بس یادیں رہ گئی ہیں۔ مجھے ان کی جدائی کا رنج ہے۔لیکن ساتھ ہی فخر بھی ہے کہ مجھے ایک بہترین انسان سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ میں مشکور ہوں ان قیمتی لمحات کے لئے جو میں نے ان کے ساتھ گزارے تھے۔ اور مشکور ہوں ان تصورات کے لئے جو ان کی یادوں کے روپ میں میرے ہمراہ ہیں۔

ہر انسان کا ایک خواب ہوتا ہے۔ شمیم آنٹی اور شارب انکل نے اپنے اسکوں کو قائم کیا تھا۔ اپنی بیٹی کے نام پر جسے پہلے ہی جانا پڑ گیا تھا۔انھوں نے اپنے تمام مالی وسائل جو ان کے پاس تھے، لگا کر اس سکول کو قائم کیا تھا۔ میں نے ان کے اسکول کو اس وقت دیکھا تھا جب اس میں گیارہ بچّوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جا رہا تھا۔ وہ برابر ترقی کرتا رہا۔ انھوں نے پوری ذمے داری کا ثبوت دیا اور اپنی بھر پور طاقت اور محبت سے اسے سینچا۔ اور اس کام میں بہت سے لوگوں نے تعاون کیا۔

شمیم آنٹی اردو زبان و ادب کی ایک بہترین عالم تھیں، جنھیں بچّوں سے بڑاپیار تھا۔ دسمبر ۵۱۰۲ء میں جب میں
اپنے شوہر اور والد کے ساتھ لکھنؤ گئی اور شمیم آنٹی سے ملنے گئی، تو اس وقت ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ دو دن سے ڈائلیوسس پر تھیں۔ بستر پر دراز تھیں۔ مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر خوشی کی چمک نمودار ہوئی۔ بار بار ہنستی تھیں۔ ہم ایک دوسرے سے گلے ملے۔ آپس میں باتیں کیں۔ میں نے انھیں اپنی بیٹی کی تصویر دکھائی۔ ہم نے مٹھائیاں کھائیں۔شارب انکل اس وقت دوسرے کمرے میں میرے شوہر اور میرے والد سے گفتگو میں مصروف تھے۔انھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور اپنی انگلی کی انگوٹھی، جس پر موتی جڑا ہوا تھا، اتار کر میری انگلی میں پہنا دی۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔میرا گلا رُندھ گیا تھا۔ لیکن میں نے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔میں پس و پیش میں تھی۔ لیکن انکار نہ کر سکی۔شاید یہ ہندوستانی تہذیب کے خلاف ہوتا۔ مجھے اس انگوٹھی پر مسرت ہے جومیری چھنگلی میں فٹ ہوتی ہے۔میں نے اس وقت اپنے اوپر کنٹرول کیا، ہنستی رہی، کیونکہ
میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ رو پڑیں۔ وہ بھی نہیں روئیں۔ میں نے فوراً پورے فخر کے ساتھ اسے شارب اَنکل کو دکھایا، جو سمجھ گئے۔ چنانچہ میں روز اسے پہنتی ہوں اور اس سے مجھے قوت اور ذہانت حاصل ہوتی ہے۔ ایک دن میرے دفتر کے ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا کہ میری انگلی میں جو انگوٹھی ہے اس کے کیا مطلب ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ مجھے ایک خاص شخصیت نے انگلی میں پہنائی ہے۔ایک دوست نے جسے میں کبھی نہیں بھولوں گی اور یہ انگوٹھی مجھے قوت اور شعور بخشتی ہے۔

جب بچّے اپنے چھوٹے جھونپڑوں میں شمع کی روشنی میں بیٹھتے ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی بہن ان حرفوں کو جو انھوں نے آج سیکھے ہیں پینٹ کرتے ہیں تو یہ شمیم نکہت کی دین ہے۔ اور جب ماں کی آنکھیں ایک فلم کو دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں اورایک باپ مسکراتا ہے، تو اس میں شمیم نکہت کا حصّہ ہے۔اور جب ایک بچّہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ چادر کے نیچے کھسر پھسر کرتا ہے تو اس میں بھی شمیم نکہت کا حصہ ہے۔اور جب دوست بے چینی سے اکٹھا ہو کر کالج کی کوئی نئی بات سننا چاہتے ہیں تو اس میں بھی شمیم نکہت کا حصّہ ہے۔

ایک چھوٹی سی شعاع یا چھوٹا سا شعاع شایدآنے والی نسلوں میں بھی پیدا ہوگا۔ شاید وہ بچّے بھی خواب دیکھ سکیں گے۔اوراس وقت اس میں بھی شمیم نکہت کا ایک حصّہ ہو گا۔ جب کوئی بچّہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ ایک چادر کے نیچے کھسر پھسر کرے گا، تو اس کے خیالات دل میں کتنے ہیجان پیدا کرنے والے ہوں گے، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔اور مجھے یقین ہے کہ ہر وہ انسان، جو شعاع کی اہمیت محسوس کرے گا، و ہ تعاون دے گا۔ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ابھی بہت سی ایسی ننھی شعاعیں ہیں، جنھیں ابھی اپنی اہمیت کا احساس نہیں ہے۔

پروفیسر شمیم نکہت کی وفات (۸۲۔۹۔ ۶۱۰۲ء) پر نرگس یونیتسا کے تاثرات

برلن، جرمنی