یمن میں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے حلقوں نے یمنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے جورج ابو الزلف کو ان کی ذمہ داری سے برطرف کیا جائے۔ یہ مطالبہ جورج کی جانب سے شہریوں کے خلاف باغیوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے اور حوثی اور صالح ملیشیاؤں کو فوقیت دینے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
یمن میں انسانی حقوق کمیشن کے بیورو کا حال انتہائی ابتر ہے جہاں کام میں دہرا پن اور معلومات اور حقائق میں غلطیاں نظر آتی ہیں۔ بیورو کی رپورٹوں ناقابل اعتماد اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کے منافی ہوتی ہیں۔
سرکاری رپورٹوں کے مطابق جورج ابوالزلف نے حجہ صوبے میں ایک حوثی کمانڈر کو کمیشن کا کوآرڈی نیٹر مقرر کردیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے صنعاء میں 18 حوثی باغیوں کو تربیتی کورس بھی کرایا جس کے بعد گمراہ کن رپورٹیں تیار کرنے کے لیے ان افراد کو بھرتی کرلیا گیا۔
رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی پہلی رپورٹ جس میں حوثیوں کا موقف واضح طور پر نمایاں نظر آرہا تھا، اس وقت جاری ہوئی جب کمیشن کے نمائندے جورج ابولزلف یمن میں موجود نہیں تھے۔
اس دوران تعز کے محاصرے اور صنعاء ، عمران اور دیگر صوبوں میں قتل عام سے متعلق مسلسل اطلاعات اور شکایات کو بھی نظر انداز کیا گیا۔
اس کے علاوہ صحافیوں کی گرفتاریوں اور جبری روپوشی، بعض گرفتار شدگان کے بطور انسانی ڈھال استعمال، جیلوں میں تشدد اور اذیت رسانی کی کارروائیوں اور بچوں کی بھرتی ان تمام امور کا کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ یمنی حکومت نے گزشتہ سال کے اختتام سے قبل ابوالزلف کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا تاہم حکومت کو کرائی جانے والی ان یقین دہانیوں کے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ کمیشن پیشہ ورانہ رجحان اور غیرجانبداری کے ساتھ کام کرے گا۔
تاہم کمیشن کے نمائندے جورج ابو الزلفہ پھر سے تیزی کے ساتھ دہرے پن کی پالیسی کی طرف لوٹ آئے۔