ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی 

Dr. Mohd. Najeeb Qasmi Sambhli

جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے کہ مسجد الحرام ومسجد نبوی انتظامیہ کے سربراہ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس صاحب کے اعلان کے مطابق امسال مسجد الحرام ومسجد نبوی میں بیس رکعت تراویح کے بجائے دس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر ادا کئے جارہے ہیں۔ یہ اعلان 28 شعبان 1441 کو اخباروں میں شائع ہوا تھا۔ 29 شعبان 1441 کو میں نے عربی اور انگریزی زبان میں امام حرم شیخ عبدالرحمن السدیس صاحب کی خدمت میں اپنا احتجاج درج کرکے ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس صاحب اور سعودی حکومت سے چند درخواستیں کی تھیں:

پہلی درخواست تھی کہ کورونا وبائی مرض کی موجودگی کے دوران جب حرمین میں چند افراد دس رکعت نماز تراویح ادا کرسکتے ہیں تو بیس رکعت کیوں نہیں؟ لہذا سابقہ روایات کو باقی رکھ کر بیس رکعت تراویح کا اہتمام کیا جائے۔ جب سے سعودی حکومت قائم ہے، سعودی حکومت کی سرپرستی میں بھی مسجد الحرام ومسجد نبوی میں بیس رکعت تراویح کا ہی اہتمام کیا گیا ہے۔ تراویح کے لئے دس رکعت کی تعیین صحیح نہیں ہے کیونکہ آج تک امت مسلمہ میں دس رکعت تراویح کا کوئی موقف نہیں رہا۔

دوسری درخواست کی گئی تھی کہ مسجد الحرام ومسجد نبوی میں آخری عشرہ میں نماز تہجد کی جماعت کا اہتمام نہ کیا جائے کیونکہ آخری عشرہ میں نماز تہجد کی جماعت کا اہتمام آل سعود کی حکومت کے دوران شروع ہوا ہے۔ خلفاء راشدین، خلافت بنو امیہ، خلافت بنو عباسی اور خلافت عثمانیہ میں ایک مرتبہ بھی رمضان کے آخری عشرہ کی ہر رات کو نماز تہجد کی جماعت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ کے قول وعمل اور صحابہئ کرام کے عمل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ پورے سال پڑھی جانے والی نماز تہجد اصل میں انفرادی نماز ہے، لیکن نفل ہونے کی وجہ سے نماز تہجد کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی گنجائش تو ہے، لیکن وقت کی تعیین کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز تہجد کا اہتمام کرنا صحابہئ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پنچ وقتہ نمازوں کی طرح سعودی عرب کی تمام ہی مساجد میں رمضان کے آخری عشرہ میں وقت کی تعیین کے ساتھ نماز تہجد جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر نماز تہجد کا گھر میں انفرادی طور پر ہی پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ نیز تراویح اور تہجد دونوں نمازیں الگ الگ وقت میں پڑھنے پر وبائی مرض کے پھیلنے کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لئے حرمین میں خیر القرون سے جاری سلسلہ کو باقی رکھتے ہوئے نماز عشا کے فوراً بعد بیس رکعت نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے اور آل سعود کی حکومت کے دوران رمضان کے آخری عشرہ میں شروع ہوئی نماز تہجد کی جماعت کو اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے منسوخ کردیا جائے۔

تیسری درخواست کی گئی تھی کہ حضور اکرم ﷺ 2 ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے وفات تک ہمیشہ رمضان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ صحابہئ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور بڑے بڑے محدثین، مفسرین اور فقہاء بھی حضور اکرم ﷺ کی اس سنت پر اہتمام سے عمل کرتے تھے، لہذا حرمین میں اعتکاف کو بالکل ختم نہ کیا جائے جیسا کہ اعلان میں کہا گیا ہے، بلکہ جس طرح گنتی کے چند افراد نماز پنچ وقتہ اور نماز تراویح پڑھ سکتے ہیں، اسی طرح چند افراد سماجی فیصلہ کو باقی رکھتے ہوئے اعتکاف بھی کریں تاکہ حرمین میں حضور اکرم ﷺ کی یہ اہم سنت فوت نہ ہو۔ جب سعودی حکومت کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے دونوں مساجد میں صرف چند حضرات نماز تراویح ادا کررہے ہیں حالانکہ لاکھوں افراد نماز تراویح پڑھتے تھے۔ اسی طرح سعودی حکومت کے فیصلہ پر چند حضرات اعتکاف کی سنت بھی ادا کرسکتے ہیں۔

شیخ السدیس صاحب کو یہ پیغام ارسال کرنے سے قبل مجھے معلوم تھا کہ فیصلہ بدلنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتے ہیں، لیکن معاملہ حرمین شریفین کا تھا، جن کی قدرومنزلت ہر مسلمان کے لئے بہت زیادہ ہے۔ مسجد الحرام جہاں بیت اللہ ہے، جو ہمارا قبلہ ہے جس کی طرف ہم روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں اور مسجد نبوی ہمارے نبی اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے تعمیر کردہ وہ مسجد ہے جس کے ایک حصہ میں آپ ﷺ آرام فرما رہے ہیں اور جو مسجد الحرام کے بعد سب سے مقدس مسجد ہے۔ ان دو مقامات مقدسہ پر عام مسلمانوں کا حق ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے اختلاف کا اظہار کیا تھا جو میرا حق ہے۔

جدہ میں مقیم ہندوستان کے رہنے والے جناب محمد عاقل صاحب کی ایک ویڈیو آج دیکھی جس میں انہوں نے حافظ شکیل میرٹھی صاحب کی آڈیو کے ذریعہ میرے مضمون پر تبصرہ پیش کیا۔ میری تحریر میں تین درخواستیں کی گئی تھیں۔ ۱) حرمین میں بیس رکعت تراویح کی ادائیگی کی جائے۔ ۲) کورونا وائرس کی وجہ سے نماز تہجد کی جماعت کا اہتمام نہ کیا جائے۔ ۳) جس طرح لاکھوں افراد کی جگہ چند حضرات تراویح ادا کرسکتے ہیں اسی طرح نبی اکرم ﷺ کی اہم سنت اعتکاف پر عمل کرنے کے لئے حرمین میں چند افراد کے اعتکاف کا اہتمام کیا جائے۔ دونوں حضرات نے دوسرے اور تیسرے پائنٹ پر ایک لفظ بھی نہیں کہا، جس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ وہ بھی میری ان دونوں تجاویز سے متفق ہیں، مگر حق گوئی کی ہمت نہیں کر پارہے ہیں۔ دونوں حضرات کا تعلق کیونکہ مسلک اہل حدیث (غیر مقلدین) سے ہے اس لئے انہوں تراویح سے متعلق پائنٹ پر تبصرہ کرنے کی اپنی ذمہ داری سمجھی۔ آڈیو پیغام کے دوران حافظ شکیل میرٹھی صاحب نے تین مرتبہ یہ بات کہی اس تحریر کی ضرورت نہیں تھی۔ جب اس تحریر کی ضرورت ہی نہیں تھی تو پھر اس پر تبصرہ کرنے کی کیوں ضرورت پیش آگئی۔

خیر! اس تبصرہ میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح شروع ہوئیں اور حرمین میں یہ سلسلہ برابر جاری ہے، اس کی دلیل درکار ہے۔ دوسری بات انہوں نے اپنی طرف سے کہی کہ نماز تہجد اور نماز تراویح دونوں ایک ہی نماز ہیں۔ پہلی بات کے لئے میں نے پہلے ہی کسی حنفی یا برصغیر کے عالم کا حوالہ دینے کے بجائے ایک ایسے عالم دین کی کتاب کا حوالہ دیا تھا جو سعودی عرب کے نامور عالم دین، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی شیخ عطیہ محمد سالم ہیں جنہوں نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی)  لکھی ہے، جس میں انہوں تاریخی شواہد کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ مسجد نبوی میں پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس رکعت سے کم تراویح ادا نہیں کی گئیں۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے شیخ عطیہ محمد سالمؒ لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعات پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ لہذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں تاکہ ان لوگوں کے شک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعات تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے۔ اس کتاب میں 1400 سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالمؒ لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ 8 سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو؟غرضیکہ مسجد نبوی کے امام شیخ عطیہ محمد سالمؒ نے واضح کردیا کہ مسجد نبوی میں کبھی بھی بیس رکعت تراویح سے کم نہیں پڑھی گئیں۔ اس کتاب کا میں پہلے بھی حوالے دے چکا ہوں مگر دونوں حضرات نے اس کتاب یا اس کے مصنف سعودی مشہور عالم دین پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیس رکعت تراویح شروع ہوئیں، اس کے متعلق متعدد احادیث ذخیرہ حدیث میں موجود ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لئے ان کو ذکر نہیں کررہا ہوں کیونکہ آٹھ رکعت تراویح کے قائلین کے پاس ان تمام احادیث کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ ان احادیث کی سند میں ضعف ہے، لیکن میں سعودی عرب کے شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ اور شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ کے مشہور شاگرد ومشہور عالم دین شیخ محمد صالح المنجد کی مشہور ویب سائٹ ”اسلام سوال وجواب“ کے حوالہ پر اکتفا کرتا ہوں: (82152) نمبر پر ایک سوال کے جواب میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس تراویح کے شروع ہونے کے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد شیخ محمد صالح المنجد نے فرمایا کہ ان احادیث کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (السنۃ الغالبہ) یعنی زیادہ تر صحابہ کرام کا معمول بیس رکعت تراویح پڑھنے کا تھا۔ اسی سوال کے جواب میں انہوں نے علامہ ابن تیمیہؒ کا قول بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ اکثر علماء کی رائے ہے کہ یہی (یعنی بیس رکعت) سنت ہے کیونکہ مہاجرین وانصار صحابہ کے درمیان یہ عمل ہوا اور کسی ایک صحابی سے اس پر انکار ثابت نہیں ہے۔ نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن احادیث میں 11 رکعت کا ذکر ہے وہ ابتدائے زمانہ پر محمول کیا جائے گا، مگر بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تک کا اضافہ کیا گیا تاکہ لوگوں پر قرأت میں تخفیف ہوجائے۔

غرضیکہ میں نے جو بات ذکر کی تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تروایح شروع ہوئیں، وہ دعویٰ بلا دلیل نہیں بلکہ مع الدلیل ہے، وہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کوتسلیم نہ کرے۔ رہی بات کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے آج تک کبھی بیس رکعت تراویح سے کم نہیں ہوئیں تو سعودی عالم دین کی مشہور ومعروف عربی کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی)  کا مطالعہ کریں۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذ مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری نے اس کا اردو ترجمہ (مسجد نبوی میں تراویح عہد بعہد) کے نام سے شائع کیا ہے۔ عربی نہ جاننے والے حضرات اس کتاب سے رجوع کرسکتے ہیں۔

مزید معلومات کے لئے پیش ہے کہ مشہور محدث امام ترمذیؒ  فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علی وحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعات ہیں۔ حضرت سفیان ثوریؒ، ابن مبارکؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعات پڑھتے دیکھا۔ (ترمذی، باب ما جاء فی قیام شہر رمضان) صحیح مسلم شریف کی سب سے مشہور ومعروف شرح لکھنے والے علامہ نوویؒ جو ریاض الصالحین کے مصنف بھی ہیں فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعیؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے چونکہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرات صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا اور اس پر مسلسل عمل جاری ہے حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔ (شرح مسلم للنووی، ملخص: الترغیب فی قیام رمضان) نیز علامہ نوویؒ  فرماتے ہے کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعات ہیں جن میں ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص ۳۸)

اس موضوع پر مزید دلائل اور اکابرین امت کے اقوال کے لئے میرا ایک تفصیلی مضمون (بیس رکعت تراویح) کا مطالعہ کریں جو اردو، ہندی اور انگریزی زبان میں میری ویب سائٹ اور موبائل ایپ (Deen-e-Islam) پر موجود ہے۔

رہا حافظ شکیل میرٹھی صاحب کا یہ کہنا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ نماز تہجد اور نماز تراویح ایک ہی نماز ہے۔ یہ ان کی اور ان کی جماعت کی رائے ہوسکتی ہے مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں اکثر علماء کی رائے ہے کہ نماز تہجد اور نماز تراویح دونوں الگ الگ نماز ہیں۔ تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات (يَااَيَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ  اللَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلا……)  اور وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَکَ پڑھ لیں۔ نیز نماز تہجد پڑھنے کا سلسلہ مکہ مکرمہ سے ہے، جبکہ تراویح کا عمل حضور اکرمﷺ کے فرمان سے مدینہ منورہ میں مشروع ہوا ہے جیساکہ آپﷺ کا ارشاد ہے:  سَنَنْتُ لَہٗ قِيَامَہٗ (نسائی، ابن ماجہ) تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے۔

اگر دونوں ایک ہی نماز ہیں تو حدیث کی سب سے مشہور کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاریؒ نے اپنی مشہور کتاب (صحیح بخاری) میں دو الگ الگ باب قائم کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حضرت امام بخاریؒ نے اپنی مشہور کتاب (صحیح بخاری) میں نماز تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں جبکہ نماز تراویح کو (کتاب صلاۃ التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں جیساکہ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ نے فرمایا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث، جس میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے، وہ کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاریؒ نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔ نہ صرف صحیح بخاری بلکہ صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور موطا مالک جیسی حدیث کی تقریباً تمام ہی مشہور ومعروف کتابوں میں نماز تراویح کے لئے قیام رمضان اور تہجد کے لئے قیام اللیل کا باب الگ الگ موجود ہے۔ اگر دونوں نمازیں ایک ہی تھیں تو حدیثوں کے ان اماموں کو الگ الگ باب قائم کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے جیساکہ امام بخاریؒ نے اپنے موقف سے روز روشن کی طرح مسئلہ حل کردیا۔ دیگر بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے نہ کہ تراویح کے باب میں۔ حدیث کی مشہور ومعروف کتابوں (مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی، موطا امام مالک) کا مطالعہ فرمائیں۔ علامہ شمس الدین کرمانیؒ (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہؓ کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ (الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری) حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺگیارہ رکعات پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔امام محمد بن نضر مروزیؒ نے اپنے مشہور کتاب (قیام اللیل) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں مگر مذکورہ بالا حدیث عائشہ نقل نہیں فرمائی، اس لئے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔نماز تہجد کے متعلق آپ ﷺ سے مختلف رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔ بعض احادیث میں بارہ رکعت تک ذکر موجود ہے۔

 آخر میں عرض ہے کہ میں نے امام حرم شیخ عبدالرحمن السدیس صاحب اور سعودی حکومت سے تین درخواست کی تھیں، جو میرا حق ہے۔ ۱) حرمین میں سابقہ روایات کو باقی رکھ کر بیس رکعت تراویح کی ادائیگی کی جائے کیونکہ جب کورونا وائرس کے سائے میں دس رکعت تراویح پڑھی جاسکتی ہیں تو بیس کیوں نہیں؟۔ ۲) آل سعود کی حکومت کے دوران شروع ہوئی نماز تہجد کی جماعت کا کورونا وائرس کی وجہ سے امسال اہتمام نہ کیا جائے۔ ۳) جس طرح لاکھوں افراد کی جگہ حکومت کی پابندی کی وجہ سے صرف چند حضرات تراویح ادا کرسکتے ہیں اسی طرح نبی اکرم ﷺ کی اہم سنت اعتکاف پر عمل کرنے کے لئے حرمین میں چند افراد کے اعتکاف کا اہتمام کیا جائے۔

تراویح کے تعلق سے آٹھ یا بیس کا اختلاف کافی زمانہ سے چلا آرہا ہے۔ نماز تراویح فرض نہ ہونے کے وجہ سے دنیا کے موجودہ حالات میں اس پر بحث ومباحثہ یقینا مفید نہیں ہے۔ چونکہ جناب محمد عاقل صاحب اور حافظ شکیل میرٹھی صاحب نے دوسرے اور تیسرے پائنٹ پر ایک لفظ نہ کہہ کر صرف بیس رکعت تراویح کا ذکر کرکے دو سوال پیش کردئے تھے جن کا جواب دنیا ضروری تھا۔