ماہنامہ ’’ نیادور ‘‘ کا ایک شاندار ماضی رہاہے۔اردو ادب کی معروف شخصیات اس رسالے سے وابستہ رہی ہیں ۔ایک زمانے میں اردو کا ہر مایہ ناز ادیب اس رسالے میں چھپنے کو ترجیح دیتا تھا مگر آج عالم یہ ہے کہ اردو کے ریسرچ اسکالرز بھی اس رسالے کو ’’تھرڈ گریڈ‘‘ رسالہ مان کر نظر انداز کررہے ہیں ۔اس کی ساری ذمہ داری جہاں سرکار پر عائد ہوتی ہے وہیں اردو داں طبقہ بھی اس کی زبوں حالی کے لئے ذمہ دارہے ۔ہمارے ادیب اس کی بقا کے لئے کوئی کوشش کرتے نظر نہیں آتے ۔ ہونا یہ چاہئے کہ انفارمیشن ڈائریکٹر،متعلقہ افسران اور وزیراعلیٰ سمیت گورنر اترپردیش کو اس سلسلے میں مسلسل خطوط لکھے جائیں۔ممکن ہے ابتدا میں ان خطوط پر کوئی توجہ نہ دی جائے مگر ایک نا ایک دن یہ محنت ضرور رنگ لائے گی ۔خطوط میں یہ بھی لکھاجائے کہ اس رسالے کی ذمہ داری اردو کے کسی اچھے اورمخلص ادیب کو سونپی جائے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کونسی تحریریں ’’ نیادور‘ کے لائق ہیں ۔ حکومت کی شعبدہ بازی کی انتہا یہ ہے کہ کبھی کسی فوٹو گرافر کو اس کا مدیر بنا دیا جا تا ہے تو کبھی کسی فلم افسر کو اس کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے ۔اس کا خمیازہ ’’ نیادور‘‘ کو بھگتنا پڑا ہے اور رسالہ بند ہونے کی کگار پر ہے ۔اس سے پہلے بھی ’’ نیادور‘‘ کبھی وقت پر چھپ کر قارئین تک نہیں پہونچتا تھا مگر کم ازکم دیر سے ہی سہی رسالہ شائع تو ہورہا تھا ۔کیونکہ اس رسالے کے قارئین نے متعلقہ افسران کو خط لکھ کر رسالے کی اشاعت میں تاخیر کی شکایت کبھی نہیں کی ،اس کا نقصان یہ ہوا کہ نااہل مدیران اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے رہے ،کیونکہ انہیں رسالہ کی ادارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔عالم یہ ہے کہ جنہیں اردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتی وہ بھی اس کے مدیر بنادیے جاتے ہیںاور مصیبت یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی نااہلی سے واقفیت کے باوجود اس ادبی رسالے کی ذمہ داری لے لیتے ہیں۔ایسے لوگ جو صحافتی صلاحیت سے عاری ہیں اور جنہیں مضامین کے انتخاب کا بھی سلیقہ نہیں ہوتا وہ بھی اس کے مدیر بنائے گئے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مدیرہ محترمہ چارج لینے کے چھ مہینے کے بعد بھی ایک شمارہ شائع نہیں کر سکیں ،جبکہ انہیں اپنی اردو دانی اور افسانہ نگاری پر بڑا ناز ہے ۔اردو کے ایسے ادیب جوحد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہوں ،اردو کے لئے ناسور ہیں۔ اس سب کے باوجود پوری اردو دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ یہی صورت حال رہی تو وہ د ن دور نہیں جب دیگر اردو رسائل کی طرح یہ رسالہ بھی وجود سے عدم کی طرف گامزن ہو جائے گا

تقریباً ایک سال سے نیا دور میں شائع مشمولات کے محنتانے کی اداءیگی بھی شاعروں اور ادیبوں کو نہیں کی گئی ہے اور نہ کوئی معقول جواب محکمے کی جانب سے دیا جارہا ہے
۔اس لئے اردوں سے محبت کرنے والے افراد سے گزارش ہے کہ ڈائریکٹر انفارمیشن کو اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خطوط لکھے جائیں اور اہل مدیر کا مطالبہ کیا جائے ۔۔اس لئے اردوں سے محبت کرنے والے افراد سے گزارش ہے کہ ڈائریکٹر انفارمیشن کو اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خطوط لکھے جائیں اور اہل مدیر کا مطالبہ کیا جائے ۔

فقط– اردو کا ایک پرستار