یاد فضل امام رضوی تقریب سے پروفیسر علی احمد فاطمی کا کلیدی خطبہ

ڈاکٹر اکبر علی صحافتی اور لئیق رضوی ادبی اعزاز سے سرفراز

لکھنؤ۔ پروفیسر فضل امام رضوی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک ادبی تقریب ’یاد فضل امام رضوی ‘کا انعقاد کیاگیا۔ یہ تقریب فضل ادب اکیڈمی کے زیر اہتمام ہوئی جس میں پروفیسر علی احمد فاطمی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس ادبی تقریب کی صدارت انجینئر سید درالحسن نے کی۔ اس موقع پر مولانا شمس الحسن اور رامپور سے ڈاکٹر ارشد رضوی بھی شامل ہوئے۔ تقریب کا آغاز پروفیسر فضل امام کی نو مطبوعہ کتاب وفور شاعری کی رونمائی سے ہوا۔

فضل ادب اکیڈمی کی جانب سے ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی کو اردو صحافت کیلئے اور لئیق رضوی کو ان کی تصنیف ، عوامی مرثیہ کی روایت پر اور وقار رضوی مرحوم کو بعد از مرگ ان کی مجموعی ادبی علمی و صحافی کاوشوں کیلئے فضل ادب ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اس موقع پر پروفیسر فضل امام کو یاد کرتے ہوئے پروفیسر علی احمد فاطمی نے ان کی گراں مایہ ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے اخلاقی پہلوئوں کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر فضل امام رضوی کی ادبی ضیاپاشیاں بلاتفریق خویش و غیر ہر ایک پر ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر اردوداں طبقہ انہیں ’کرپا رام ‘ کہتا تھا۔ انہوں نے بہت جذباتی انداز میں پروفیسر فضل امام رضوی کی ادب نوازی ، ادب پروری اور ذاتی مراسم کو تفصیل کے ساتھ اپنی کلیدی تقریر میں پیش کیا۔

ڈاکٹر ارشد رضوی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر فضل امام کا انتقال پورے ایک عہد کا ختم ہونا ہے کیونکہ ان کی ذات ایک ادبی کائنات کا درجہ رکھتی تھی۔ پروفیسرفضل امام رضوی بذات خود ایک ادبی دبستان تھے۔ جہاں تشنگان علم و ادب سیراب ہوا کرتے تھے۔

صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے انجینئر درالحسن نے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور اشعار پیش کئے۔ ڈاکٹر مخمور کاکوروی نے قطع تاریخ پیش کیا اور پروفیسر فضل امام کی شفقتوں کو یاد کیا۔ فضل ادب اکیڈمی کے اغراض و مقاصد پروفیسر عباس رضا نیئر نے پیش کئے۔ انہوں نے تقریب کی نظامت اپنے مخصوص لب ولہجہ میں کرتے ہوئے پروفیسر فضل امام کی بلند و بالا ادبی شخصیت کے ادبی کارناموں کو یاد کرتے ہوئے فضل ادب اکیڈمی کے بانی باقر امام رضوی کو مبارک باد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ یہ اکیڈمی پروفیسر فضل امام رضوی کے کارناموں کے ساتھ ساتھ اردو کی خدمات اس انداز سے کرے گی کہ پروفیسر فضل امام رضوی کے تمام ادھورے خواب مکمل ہوسکیں۔انھوں نے کہا کہ ایک والدین کی سب سے قیمتی سرمایہ اسکی لائق اولاد ہوتی ہے جو آج انکے لائق فرزندوں نے ثابت کر دی۔ اس موقع پرڈاکٹر سلیم احمد نے اپنے تاثراتی مضمون میں اپنے کہا کہ موصوف میرے اور میرے کنبہ کے سرپرست تھے ان کی رحلت سے جہاں اردو ادب کو نقصان پہنچا وہیں میں ایک مشفق سرپرست سے محروم ہوگیا۔ ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے بہت سے افراد موجود تھے۔ تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر ذاکر امام دانش نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ فضل ادب اکیڈمی کی یہ پہلی باقاعدہ ادبی تقریب تھی جو انشا اللہ جاری رہتے ہوئے ادبی خدمات انجام دیتی رہے گی۔