ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

9897334419

اللہ نے آپ کو فریضہ حج ادا کرنے کی سعادت بخشی ہے۔یہ اللہ کا بڑا احسان ہے۔یہ دولت جس کے زور پر آپ مصارف حج برداشت کررہے ہیں،یہ اللہ کی عطا ہے۔یہ جسمانی قوت جو آپ کو حرمین تک آنے جانے میں ممد ومعاون ہے،یہ اللہ کی امانت ہے۔کوئی چیز بھی آپ کی اپنی نہیں،اللہ کے احسان،اس کی عطا،اس کی امانت اور نعمت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی رضا کا خیال رکھیں،کوئی ایسا کام نہ کریں جس کا اس نے حکم نہ دیا ہو،یا جس کے کرنے کو وہ ناپسند کرتا ہو۔انصاف کا تقاضا تو یہی ہے،یہی عبدیت کی شان ہے۔ویسے تو اللہ کی خوشنودی کا خیال ہر شعبہ زندگی میں رکھنا چاہئے،ہمارا اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،چلنا پھرنا،کاروبار کرنا،ایک دوسرے سے تعلقات رکھنا،یا نہ رکھنا سب کچھ، یہاں تک کہ ہماری آرزوئیں اور خواہشیں بھی اس شریعت کے تابع ہونا چاہئیں جو ہمیں پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے ذریعہ ملی ہے۔یہی تکمیل ایمان کی شرط ہے۔عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواٖہش نفس ان احکام کے تابع نہ ہوجائے جن کو میں لے کر آیا ہوں“۔  (بیہقی)یہی بات قرآن پاک میں دوسرے انداز سے فرمائی گئی۔:”وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ“۔. ترجمہ:”اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے“۔  (الحشر۔7)لیکن کم سے کم ان امور میں تو اللہ کی کامل اطاعت کی جانی چاہئے جن کا تعلق خالصتاً دینی امور سے ہے اور جو تعبدی اعمال کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔مثلاً نماز،روزہ،زکاۃ اور حج،یہ وہ اعمال ہیں جن کے دینی ہونے میں کوئی شک اور اختلاف نہیں۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان امور دینیہ میں بھی ہماری خواہشوں کو دخل ہے۔ہم نے ان اعمال کی ہیئت تراکیبی میں تو کوئی الٹ پھیر نہیں کیا ہے،لیکن ان کے ساتھ بہت سی لوازمات شامل کردی ہیں،جو کم علم لوگوں کے نزدیک دین کا حصہ سمجھی جانے لگی ہیں۔اب آپ خود ہی سوچئے کہ جو کام آپ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کررہے ہیں،اور جس کے کرنے پر اس سے اُسی اجر وثواب کی توقع رکھتے ہیں جس کا وعدہ آپ سے کیا گیا ہے،لیکن آپ اس کے انجام دینے میں اپنی خواہشوں کو شامل کررہے ہیں تو کس طرح آپ اس اجر و ثواب کے مستحق ہوسکتے ہیں۔مجھے تو ڈر ہے کہ آپ کی اس حرکت کی وجہ سے کہیں یہ اعمال مقدسہ وجہ وبال نہ بن جائیں۔

اس وقت حج کا موسم ہے۔ہمارے ملک سے پروازیں شروع ہوگئی ہیں۔حج آج سے نہیں بلکہ جب سے کعبہ بنا ہے تب سے ہورہا ہے۔نبی ﷺ نے حج کرکے دکھایا،اس کا طریقہ سکھایا۔اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے کیا،متواتر حج ہوتا رہا،مگر ان دنوں برصغیر ہندو پاک کے  مناسک حج میں بعض نئی رسومات(کچھ لوگوں کو چھوڑ کر) شامل ہوگئی ہیں،جس کی وجہ سے حج نہ صرف مہنگا ہوگیا ہے،بلکہ اس کی مقبولیت بھی مشکوک ہوگئی ہے۔ان اضافی رسومات میں ایک ریاکاری ہے۔ایک حاجی جب حج کو جاتا ہے تو چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو اس کی خبر ہوجائے۔حج کی درخواست دینے کے ساتھ ہی اپنے اعزہ و رشتہ داروں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے،لوگ حج پر جانے سے پہلے ہی اس کے نام کے ساتھ حاجی کا لاحقہ لگادیتے ہیں،حج کے بعد وہ خود بھی اپنے نام سے پہلے حاجی لکھنے لگتا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک خاں صاحب پر ایک بنئے کا بڑا قرض تھا،خان صاحب ادا کرنے کا نام نہ لیتے تھے،کئی سال گزر گئے۔اتفاق سے خان صاحب قرض اداکیے بغیر حج کو چلے گئے۔حج سے واپسی پر وہ بنئے کے پاس جاکر بولے:”لالہ جی! ذرا ہمارے حساب والی کتاب نکالیے“۔بنیا بہت خوش ہوا کہ چلو حج کے بعد خان صاحب کو قرض ادا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔اس نے خوشی خوشی حساب کی کتاب کھولی اور خان صاحب کے نام کا ورق کھول کر بولا:”جی خان صاحب“۔خان صاحب بولے:”میرے نام کے ساتھ حاجی لکھ دو“۔

تعجب ہوتا ہے کہ حاجی لکھنے کی بدعت کہاں سے شروع ہوئی۔پیارے نبی ﷺ نے بھی حج کیا،لیکن ہم ان کے نام نامی لیتے وقت حاجی نہیں لگاتے،کسی صحابی رسول کے ساتھ حاجی نہیں لکھتے،یہاں تک کہ اولیاء کرام کے ساتھ بھی میں نے کسی کو حاجی لکھتے یا بولتے نہیں دیکھا۔لیکن ہم ہیں کہ حاجی لکھنے کو شان سمجھتے ہیں،بعض عاقبت نا اندیش تو حاجی نہ کہنے پر ناراض ہوجاتے ہیں۔جب ہم نماز پڑھنے والے کو نمازی اور زکاۃ دینے والے کو زکاتی نہیں کہتے تو حج کرنے والے کوحاجی کیوں کہتے ہیں؟اسی طرح بعض لوگ حج کے بعد ایک خاص قسم کا رومال سر پر رکھیں گے اور ہاتھ میں تسبیح کی مالا لیے ہوں گے تاکہ لوگ جان لیں کہ ہم دیندار ہیں اور حج کرکے آئے ہیں۔یہ ساری حرکتیں ریاکاری اور نام و نمود میں شمار ہوتی ہیں اور ریا شرک ہے۔ریایعنی دکھاوے کے ساتھ کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے۔

اسی طرح جب کوئی حج کو جاتا ہے تو اپنے اعزہ سے ملاقات کرنے کے لیے دوردراز کا سفر کرتا ہے۔سب سے ملاقات کو ضروری خیال کرتا ہے۔اپنی حج کی تاریخ بتاتا ہے اور گھر پر آنے کی دعوت دیتا ہے۔وقت مقررہ پرٹھیک اسی طرح جس طرح کسی ولیمہ کی دعوت ہوتی ہے، بڑی دعوت کا اہتما م کیا جاتا ہے،سسرالی رشتہ دار کپڑے لاتے ہیں،کوشش کی جاتی ہے کہ انھیں کے کپڑے پہنے جائیں،احرام کے علاوہ بھی سفید کپڑے پہن کر جانے کو ضروری خیال کیا جانے لگا ہے۔گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں،گاڑیوں کا ایک قافلہ ایر پورٹ تک الوداع کہنے جاتا ہے۔آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان سب پر کس قدر پیسہ خرچ ہوتا ہے اور کتنی غیر ضروری زحمتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ایک طرف یہ عمل ریاکاری ہے۔دوسری طرف بدعت ہے اور تیسری طرف وقت اورپیسوں کا ضیاع ہے۔دور رسالت،دور صحابہ و تابعین میں ان اعمال کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔لوگ کہتے ہیں کہ ان میں کیاحرج ہے؟ان کو نہیں معلوم کہ تعبدی اعمال میں ذرا سا بھی اضافہ اس عبادت کے اجر کو ضائع کردیتا ہے۔

اسی کے ساتھ ہمارے حج کے اجر کو کم کرنے والا ایک عمل دوران حج مارکٹنگ کرنا ہے۔اسلام میں دوران حج تجارت کی ممانعت نہیں ہے تجارت یہ ہے کہ آپ مال کو برائے فروخت خریدیں یا برائے منفعت بیچیں۔آپ کو اگر ملکی قوانین اجازت دیں تو سامان برائے فروخت لے جاسکتے ہیں،اسی طرح وہاں سے ایسی اشیاء لا سکتے ہیں جن کو آپ یہاں آکر فروخت کردیں اور منافع حاصل کریں۔حالانکہ موجودہ قوانین اس میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔لیکن اعزہ و احباب کے دیے گئے تحائف یا نقدی کے بدلے میں ایسی اشیاء کی خریداری کرنا جو بآسانی اپنے ملک یا شہر میں دستیاب ہیں،فضول خرچی بھی ہے اورحماقت بھی۔ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جائے نماز،تسبیح،عطر کی شیشیاں،سرمہ،بچوں کے کھلونے،کپڑے وغیرہ خرید کر لاتے ہیں،یہ سب چیزیں بیرونی ممالک سے حرمین کی مارکیٹ میں جاتی ہیں۔آپ کے آس پاس بڑے شہروں میں انھیں قیمتوں پر مل جاتی ہیں،جن قیمتوں پر آپ حرمین سے لاتے ہیں۔صرف کھجور،زمزم،زیتون اور انجیر وہاں کی پیداوار ہے۔آپ تحفہ میں یہ چیزیں لائیں۔ایک حاجی ایام حج کا بڑا حصہ اسی حساب کتاب میں لگادیتا ہے کہ کس نے کیا دیا تھا؟ اورکس کو کیا دینا ہے؟اس وقت ہندوستان سے جانے والے حاجی کو وزارت حج کے مطابق تقریبا ساڑھے تین لاکھ روپے خرچ کرنا پڑرہے ہیں،لیکن ایک سے ڈیڑھ لاکھ رپے بے جا رسومات و فضولیات پر خرچ ہورہے ہیں۔

اے زائرین حرم:آپ ایک طویل سفر طے کرکے،ایک موٹی رقم خرچ کرکے،اپنے جملہ احباب کو چھوڑ کر،علائق دنیا سے لاتعلق ہوکر،صرف بغیر سلی دو چادریں پہن کر اللہ کے گھر جارہے ہیں،یہ آپ کا سفر آخرت بھی ہوسکتا ہے۔پھر کیوں آپ دنیا اور دنیا والوں کی پرواہ کررہے ہیں،کیوں یہ خیال آپ کے دل میں آرہا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟آپ تو زبان سے کہہ رہے کہ ”میں نے پنا رخ یکسو ہوکر اللہ کی جانب کرلیا ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے۔“پھر آپ کے عمل میں ریا کاری،فضول خرچی،کیوں ہے؟کیا آپ نہیں چاہتے کہ جب آپ حج سے فارغ ہوں تو آپ کے سارے گناہ معاف کیے جاچکے ہوں اورآپ ایسے ہوجائیں جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہیں؟ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو پھر ویسے ہی حج کیجیے جیسے پیارے نبی ؐ،اصحاب کرام ؓ،اور اولیاء عظام نے کیا تھا۔نہ خود اپنے نام کے ساتھ حاجی لگائیے اور نہ دوسروں کو لگانے دیجیے،نام آپ کا ہے اس میں حذف و اضافہ کا حق کسی دوسرے کو کیسے ہوسکتا ہے؟