عادل فراز


کورونا کے وبائی عہد میں جہاں ہر شعبۂ زندگی متاثر ہواہے ،تعلیمی نظام بھی اس مہلک وبا کی زد میں ہے ۔اسکول پیشہ ورانہ انداز میں آن لائن تعلیم کو ایسے بزنس کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جس میں ’آف لائن تعلیم ‘ سے زیادہ بچت اور آمدنی ہے ۔اسکول ٹیچرز پر سکون ہیں کیونکہ انہیں ’آن لائن تعلیم ‘ میں اپنے کردار کی پرواہ نہیں ہے ۔ان کے پاس بچوں کے لئے کوئی ایسا طریقۂ تعلیم و تربیت نہیں ہے جس کے ذریعہ بچوں کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی لگائو پیداکیا جاسکے ۔چونکہ ہندوستان میں تعلیم ایک خطرناک پیشےکی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور اسکول مالکان کی بچوں کی تعلیم و تربیت کے بجائے اپنی آمدنی پر توجہ زیادہ ہے ،لہذا لاک ڈائون کے بعد جب آن لائن تعلیم کو منظوری دی گئی ،اسکولوں نے منظم ٹھگّی کا سلسلہ شروع کردیا۔آن لائن تعلیم کے نام پر من مانے ڈھنگ سے فیس کی وصولی کی گئی اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر بچوں کو آن لائن تعلیم نہیں دلائی گئی تو ان کا مستقبل تباہ ہوجائے گا ۔صارفیت زدہ تعلیمی نظام صرف بچوں کے ذہن ،انکی صلاحیت اور مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرتاہے بلکہ والدین کی نفسیات کے ساتھ بھی کھیل رہاہے ۔اگر یہ سلسلہ اسی طرح چند برسوں تک جاری رہا تو بچے ذہنی طورپر شدید متاثرہوں گے اور والدین نفسیاتی ا مراض کا شکار ہوجائیں گے ۔

آن لائن تعلیم کے لئے منصوبے اور حکمت کا فقدان
’آن لائن تعلیم ‘ میں پہلا اور بنیادی مسئلہ منصوبے اور حکمت کا فقدان ہے۔اسکولوں نے ’آن لائن تعلیم ‘ شروع کرنے سے پہلے منظم طورپر تیاری نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ ’آن لائن تعلیم ‘ کوکس طرح ’آف لائن تعلیم ‘ سے بہتر اور مؤثر بنایاجائے۔ان کے پاس ’آن لائن تعلیم ‘ کے لئے کوئی مضبوط اور تسلی بخش لائحۂ عمل نہیں تھا ۔’آف لائن تعلیم ‘ کے طورطریقوں کے ساتھ ہی ’آن لائن تعلیم ‘ کا سلسلہ شروع کردیاگیا جس کا نقصان بچوں اور ان کے سرپرستوں کو جھیلنا پڑرہاہے ۔اسکولوں نے ’آن لائن ‘تعلیم کے لئے الگ سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ۔ان کے پاس وہی طریقۂ تعلیم ہے جو اسکولوں میں بچوں کی حاضری کے وقت رائج تھا۔اکثر اسکولوں میں ’غیر تربیت یافتہ ‘ٹیچرز ہیں جنہیں ’آن لائن تعلیم ‘کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور نہیں اس سلسلے میں کوئی فکر ہے۔انہیں اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے کہ ’حضوری طریقہ ٔ تعلیم ‘ کبھی ’آن لائن طریقہ ٔ تعلیم ‘ کا متبادل نہیں بن سکتا۔ان کی ساری تگ و دو یہ ہے کہ بچوں کو ایسے نصابی ویڈیوز بھیج دیے جائیں جنیں دیکھ کر وہ نظمیں ،اسٹوریز، اور دیگر چیزیں ذہن نشین کرلیں۔جبکہ بچہ ان تمام ویڈیوز کو ذہنی تفریح کے لئے دیکھتاہے ناکہ ’ تعلیم ‘ حاصل کرنے کی غرض سے ۔


بچے اپنے اساتذہ سے مانوس نہیں ہیں
اسکول میں بہتر تعلیم کے لئے بچوں کا اپنے اساتذہ سے مانوس ہونا بیحد ضروری ہوتاہے ۔بچے جس ٹیچر سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اس کے اثرات ان کے ذہن پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔یہ انسیت بچوں میں برقی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے اور بچہ آسانی سے اپنے ٹیچرز کی ہدایات پر عمل کرتاہے۔ اس طریقۂ تعلیم کابڑا نقصان یہ ہے کہ بچے اپنے اساتذہ سے مانوس نہیں ہوپاتے۔بعض اسکولوں کے اساتذہ نے تو گزشتہ چھ ماہ کے درمیان کبھی بچوں سے ’ویڈیو کال‘ کے ذریعہ بھی بات نہیں کی ۔یہ اساتذہ جب ایگزام کے وقت بچوں کے ساتھ ’ویڈیو کال ‘ کے ذریعہ بات کریں گے تو بچے مانوس نہ ہونے کی بنیاد پر ان کے سوالات کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جب اساتذکبھی کبھار ویڈیو کال کے ذریعہ بچوں کا ’آئیکیو ٹیسٹ ‘ کرتے ہیں ،یا نصاب کے حوالے سے بچوں کی تیاری اور ذہنی آمادگی کا جائزہ لیتے ہیں تو بچے ( خاص طورپر پلے گروپ،اور نرسری کے بچے)اساتذہ سے نامانوس ہونے کی بنا پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرنے سے گھبراتے ہیں ۔اس کا نقصان یہ ہوتاہے کہ اساتذہ یہ تصور کرلیتے ہیں بچہ ذہنی طورپر کمزور ہے اور والدین بچے کی تعلیم و تربیت پر پوری طرح دھیان نہیں دے رہے ہیں ۔جبکہ یہ اسکول اور ٹیچرز کی غلطیوں کا خمیازہ ہے جو بچوں اور ان کے سرپرستوں کو بھگتنا پڑرہاہے ۔حقیقت حال یہ ہے کہ خود اسکول اور ٹیچرز بھی ’آن لائن تعلیم ‘ کے طریقے کو لیکر پس و پیش میں ہیں اور وہ یہ طے کرنے سے قاصر ہیں کہ بچوں کو کس طرح منظم طورپر تعلیم دی جائے ۔


اساتذہ سے زیادہ والدین کا کردار
’آن لائن تعلیم ‘ میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا سارا دارومدار والدین پر ہے ۔اسکول اور ٹیچرز کا کردار بچوں کی تعلیم و تربیت میں ختم ہوچکاہے ۔بچوں کو جو بھی ’ہوم ورک‘ ملتاہے اس کا زیادہ تر حصہ والدین کو کرنا پڑتاہے ۔کیونکہ جس طرح کا ’ہوم ورک ‘ اسکول سے ملتاہے ،وہ بچوں کی دسترس سے باہر ہے ۔ڈرائنگ (DRAWING) کا زیادہ تر ورک اس نوعیت کاہوتاہے کہ جسے کرنے سے اسکول ٹیچرز بھی قاصر ہوں ۔دراصل ’آن لائن تعلیم ‘ بچوں سے زیادہ والدین کا امتحان ہے ۔اگر کسی بچے کے والدین زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں یا بالکل پڑھے لکھے نہیں ہیں ،ان بچوں کے لئے زیادہ مشکلات ہیں ۔کم تعلیم یافتہ والدین بچوں کو صحیح طرح نصاب کے ذریعہ نہیں پڑھا پاتے اور اسکول سے جو’ورک‘ آتاہے وہ بھی ٹھیک طرح انجام نہیں ہو پاتا ،جس کا نفسیاتی اثر بچوں سے زیادہ والدین پر مرتب ہورہاہے ۔یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت کا سارا کام والدین انجام دیں اور اسکول ٹیچر آن لائن ورک ارسال کرکے اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔چونکہ والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اسکولوں کے سرٹیفکٹ اور اسناد کے محتاج ہوتے ہیں ،لہذا ساری محنت اور جدوجہد کے بعد بھی انہیں اسکولوں کو بغیر کسی محنت و مشقت کے منہ مانگی فیس ادا کرنا پڑرہی ہے ۔


بچوں میں اخلاقی سطح پر گرواٹ کاسبب
آن لائن تعلیم کا ایک بڑانقصان یہ ہورہاہے کہ بچے اخلاقی سطح پر مسلسل تنزلی کا شکار ہیں ۔بچہ بعض اہم امور میں ماں باپ سے زیادہ اپنی کلاس ٹیچرز سے متاثر ہوتاہے اور سیکھتاہے ۔بعض اخلاقی صفات ایسے ہیں جنہیں بغیر اساتذہ کے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔بچہ اپنے ہم عمر بچوں کے درمیان رہ کر کئی اخلاقی صفات و کمالات کا متحمل ہوتاہے ۔’آن لائن تعلیم ‘ نے بچے کو تنہا کردیاہے ۔اسے اجتماعی زندگی کی اخلاقیات سے عاری بنادیاگیاہے۔کیونکہ کلاس ٹیچر زبھی اس کے ساتھ مانوس نہیں ہیں اور وہ بھی اپنی اخلاقی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہیں لہذا بچہ اخلاقی طورپر کمزور ہوتا جاتاہے ۔بچہ اجتماعی اخلاقیات کو سیکھنے میں اسکول اور اپنے اساتذہ کا محتاج ہوتاہے ،جسکی ضرورت کو اب ختم کردیاگیاہے۔


سندیافتہ یا تعلیم یافتہ
’آن لائن تعلیم ‘ بچوں کو سند یافتہ ضرور بنادے گی مگر تعلیم یافتہ نہیں بناسکتی۔اگر ہم ان بچوں کی بات کریں جو ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ،وہ چھوٹے بچوں سے کہیں زیادہ ذہنی طورپر پریشان ہیں ۔یہ طریقۂ تعلیم ان کے لئے تسلی بخش اور مانوس نہیں ہے ۔وہ کسی طرح ایگزام میں حصہ لے رہے ہیں مگر انہیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق جوہر دکھلانے کی آزادی نہیں مل رہی ہے ۔ظاہر ہے جب اونچی کلاسیز کے بچے ’آن لائن طریقۂ تعلیم ‘ کو قبول نہیں کرپارہے ہیں تو پھر کم سن بچےاس طریقۂ تعلیم کو کیسے قبول کرپائیں گے۔اسکولوں کا کہناہے کہ ہم بھی اس طریقے کو اپنانے پر مجبور ہیں ،ان کا یہ کہنا واضح کردیتاہے کہ ان کے پاس ’آن لائن تعلیم ‘ کے لئے کوئی منظم لائحۂ عمل اور حکمت عملی نہیں ہے ۔انہیں اپنے اسکولوں کی فکر ہے بچوں کی صحت اور نفسیات کی پرواہ نہیں ہے ۔اگر بچہ کامیاب ہوتاہے تو اس کا سارا کریڈٹ اسکول اور کلاس ٹیچر کو جائے گا اور وہی بچہ اگر ناکام ہوتاہے تو اس کی ساری ذمہ داری والدین کے سرتھوپ دی جائے گی۔یہ گورکھ دھندہ ہے جس پر سرکار بھی سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ ہماری سرکار یں بچوں کو سندیافتہ دیکھنا چاہتی ہیں ،تعلیم یافتہ نہیں!