اے آزاد قاسمی

تقریبا چھ ماہ سے کورونا کا ستم جاری ہے۔ستم بالائے ستم یہ بھی ہے کہ ’مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی‘کے مصداق ہر دن ایک نیا ریکارڈ بن رہا ہے۔دنیا بھر میں کم وبیش ڈیڑھ کروڑانسان اس قاتل وباء کی زد میں آچکے ہیں،جبکہ تقریبا 6 لاکھ سے زائد افراد اپنی زندگی کی جنگ اِن 6مہینوں کے درمیان ہارچکے ہیں۔عالمی سطح پر جدیدطبی تحقیق کاسلسلہ دراز سے دراز تک ہوتا جارہاہے لیکن مرض پر قابو پانے اور حضرت انسان کو اس آفت سے بچانے کی تمام ترتدابیرناکام ثابت ہورہی ہیں۔دنیا کی وہ حکومتیں جن کو ہر وقت اپنے خداہونے کا بے جاگھمنڈاور غرورتھا، وہ غریب و ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے کہیں زیادہ اس وبائی مرض کی زدمیں ہیں۔ دنیا  کے مشاہدہ میں یہ بات بھی واضح طورپر آرہی ہے کہ کل تک دنیاوی نظام حکومت کی قسمت کا فیصلہ لکھنے والے اوراپنی بے جا شہ زوری کامظاہر کرنے والی طاقتیں آج کس طرح اپنی لاچاری،بے بسی اوربے کسی پر ماتم کناں ہیں، جو اس بات کاغمازہے کہ دنیاوی نظام الاوقات اورحکومت پر کسی انسانی طاقت کی اتنی سی بساط ہے!


 اس وبائی مرض کی مار سے ہماراپیاراملک بھی اچھوتانہیں ہے۔تالی بھی بجی،تھالی بھی بجی،چراغاں بھی کیاگیااور’گو کوروناگو‘کانعرہ بھی لگامگر کوروناہے کہ وہ دن بہ دن اپنی پراسرار حالت کااحساس کرارہی ہے۔ہماراملک ہندوستان جسے طرح طرح کے تہواروں کے طورپر بھی جانا جاتا ہے،کورونا کے عتاب کی وجہ سے یہاں کے الگ الگ تہواروں کی سرگرمیاں  اور بے شمار علاقائی رسم ورواج بھی متاثر ہورہی ہیں۔ پہلے عید الفطر کی خوشیوں پر کورونا پانی پھیر گیا اور اب آثار وقرائن سے یہی اندازہ ہورہاہے کہ عید الاضحی کی خوشیاں بھی اس کی نذر ہوجائیں گی۔


اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پچھلے پانچ چھ ماہ سے ہر طرح کی سماجی سرگرمیاں اور رسم ورواج پر اس وبائی مرض کے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔دوسرے لفظوں میں کہوں توکورونانے عوامی چہل پہل اور معاشرتی زندگی کاشیرازہ بھی بری طرح سے منتشرکرکے رکھ دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی تمام طرح کی مذہبی تقریبا ت پر بھی اجتماعی طور پرپوری طرح سے پابندی عائد ہے۔ جس کی وجہ سے عبادت گاہوں میں اجتماعی مذہبی سرگرمیوں کی ادائیگی نہیں ہوپارہی ہے۔طویل لاک ڈاؤن کے درمیان جو صورتحال پیدا ہوئی،وہ ہم سبھوں کے سامنے ہے اور اب جبکہ جگہ جگہ دوبارہ لاک ڈاؤن کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے،عوامی،سماجی اور مذہبی سرگرمیوں پر کہیں مکمل اور کہیں جزوی پابندیوں کے نفاذکے ساتھ ہی عیدقرباں کی آمد کے ہم سب شدت سے منتظرہیں۔


مسلمانوں کے نزدیک اسلامی سال کے اس آخری مہینہ ذی الحجہ کو بایں طور فوقیت حاصل ہے کہ اللہ عزوجل نے بنی نوع انسان کو اس ماہ مبارک میں حج اورقربانی جیسی عظیم دواہم عبادتیں عطاء فرمائی ہیں۔اس مہینہ کی دس تاریخ کو پوری دنیا کے مسلمان اس بے مثال سنت ابرہیمی کی یادمیں اللہ کے حضوراپنی قربانی پیش کرتے ہیں جس کو اللہ عزوجل کے جلیل القدرپیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیھماالسلام نے اللہ کے حضورپیش کی تھی، ان برگزیدہ شخصیات کا عمل اللہ رب العزت کو اس قدرپسند آیا کہ رہتی دنیا تک کے لئے ان کے اس عمل میں سے بعض کو امت محمدیہ ﷺ پر فرض اوربعض کو واجب اور سنت مؤکدہ قراردیکر رہتی دنیا تک کے لئے زندہ وجادیدبنادیا،پوری دنیاسے امت مسلمہ ایام حج میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی بے مثال جذبہ فدائیت اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے جذبہ جاں نثاری کی پیروی میں حکم الہی کو بجالانے کیلئے دیوانہ وار شہر امن ”مکۃ المکرمۃ“کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں، جہاں نہ کوئی رنگ ونسل کی تمیز ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لسانی تفریق، ہر ایک کی زبان پر اپنے رب کے شوق دید میں بس ایک ہی کلمہ ہوتاہے کہ اے اللہ میں حاضرہوں،میری اس حاضری کو قبول فرما، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا کو ئی شریک نہیں، تمام تعریفیں آپ ہی کو سزاوار ہیں۔لیکن اانسانوں کا ٹھاٹھیں مارتاسیلاب اس سال شاید ہمیں اس اندازمیں دیکھنے کو نہ ملے، جو یقینا اہل ایمان کے لئے ایک تکلیف دہ نظارہ ہوگا۔  
 دنیا اس وقت جس وبائی مرض کی گرفت میں پوری طرح سے دم بخودم ہے، اس سے مستقبل قریب میں چھٹکاراناممکن نہیں تومشکل ضرور دکھائی دے رہاہے۔ جس طرح گزشتہ رمضان المبارک کی اجتماعی عبادات سے دنیا کے اکثرملکوں کے مسلمان محروم رہے، اسی طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے جذبہ فنائیت کی نادر اور بے مثال یادگارکو عملی طورپر پیش کرنے کیلئے اور تقرب الی اللہ کے حصول کیلئے دنیا میں بھر میں انجام پانے والی اجتماعی قربانی کے عمل کے بھی متاثرہونے کا خطرہ پیداہوگیا ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ایک بارپھر دنیابھرکے مسلمان اس عظیم عمل کی انجام دہی کے بدلے عطاء ہونے والے ظاہری وباطنی خیر سے بڑی حدتک محروم ہوسکتے ہیں جو اللہ رب العزت کی اپنے بندوں سے ناراضگی کی طرف صاف اشارہ ہے۔


 اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں سے ناراض ہوتاہے تو وہ اپنی عطا کردہ نعمت کے فیوض وبرکات اورخوشیوں سے دنیا کو اسی طرح محروم کردیتاہے تاکہ اہل دنیا اس سے عبرت لے سکے۔ ہمارے لئے لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی سے توبہ کریں تاکہ اس وبائی مرض سے خلق خداکو جلد سے جلد چھٹکارامل سکے اور نام ونمود سے دور ہوکر خالص تقرب الی اللہ کیلئے قربانی جیسی عظیم عبادت کو انجام دیں۔ سوشل میڈیا یادیگر ذرائع سے جو من گھڑت باتیں نام نہاد دانشوریا خودفہمی کے شکارلوگوں کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے کہ اس بار قربانی کے بدلے غریب اور بے حال لوگوں کی مددکی جائے جو قربانی کا بدل بھی ہوگا اور دوہراثواب کا ذریعہ بھی بنے گا، سراسربے بنیادباتیں ہیں اور کہیں نہ کہیں غضب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جس سے وقت رہتے توبہ کرنا چاہئے،کیونکہ قربانی کے دنوں میں اللہ کے نزدیک قربانی کے جانوروں کاخون بہانے سے زیادہ کوئی اور عمل محبوب نہیں۔لہٰذا حکومتی گائیڈلائن کو مدنظررکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پورے خلوص اور جذبہ کے ساتھ سنت ابراہیمی کے عمل کو انجام دیں اور اپنے معبودحقیقی سے یہ کامل یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہر خطاکومحض اپنے فضل وکرم سے درگزرکرتے ہوئے اس جان لیواوبائی مرض سے ہم سب کو نجات عطاء فرمائے تاکہ پہلے کی طرح خلق خدا،خانہ خدامیں حاضرہوسکے اور اپنی کاہلی اور نافرمانی پر ندامت کے آنسوکے ساتھ معافی کے طلبگاربن سکے۔


یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہم اس وقت ایک نازک دورسے گزررہے ہیں،منصوبہ بند طریقہ سے ہمارے خلاف پروپیگنڈے ہورہے ہیں، کچھ باطل طاقتیں ہماری صفوں میں شامل ہوکر ہمارے درمیان انتشاروتفریق پیداکرکے اسلامی شعائر اوراسلامی تعلیمات کو نشانہ بناکر انہیں متنازعہ بنادینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ وہ دوسروں کو ہماری طرف سے بدظن اور گمراہ کرسکیں، ایسے میں ہمیں اپنا ہر ہر کام بہت احتیاط اور احسن طریقہ سے انجام دینا ہوگاتاکہ ان طاقتوں کو کوئی موقع نہ مل سکے۔ ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ تہوار کوئی دکھاوا یا نام ونمودکا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ ہم اللہ کی رضااور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لئے ہمارامقصدکسی دوسرے کو اذیت دینا ہر گزنہیں ہونا چاہئے ہم صبروسکون کے ساتھ اس اہم فریضہ کی ادائیگی کریں اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ کے حضورر سربسجودہوکر یہ دعامانگیں کہ اے اللہ اس وباسے ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کو نجات دے تاکہ خلق خدا تباہی وبربادی سے محفوظ رہے، بیشک اللہ ہی سب سے زیادہ مہربان رحم کرنے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والاہے اور اللہ ہی کی ذات ہم سب کا حامی اور ناصرہے۔