عادل فراز

ہندوستان میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے شواہدموجود نہیں ہیں ۔یہ الگ بات کہ زعفرانی و یرقانی تنظیمیں مسلسل اس دعویٰ پر اصرار کرتی رہتی ہیں کہ ہندوئوں کا جبریہ مذہب بدلوایاگیا۔پہلی بات تو ان تنظیموں کو تاریخ بدلنے کے بجائے سنجیدگی سے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ہندوستان میں تبدیلیٔ مذہب کے تاریخی شواہد تو دراوڑوں اور آسٹرکوں کی آمد کے ساتھ ملتے ہیں ۔قدیم مقامی باشندوں کے ساتھ دراوڑوں اور آسٹرکوں نے انسانی سلوک روا نہیں رکھا جس کی بنیاد پر مقامی باشندوں نے اپنے دین و عقائد کو ترک کرکے مفتوحہ قوموں کے تمدن اور عقائد کو اپنالیا۔یہی صورت حال دراوڑوں اور آسٹرکوں کے ساتھ پیش آئی ۔آریوں کی ہندوستان ہجرت میں جوقوم مزاحم ہوئی تھی وہ دراوڑ تھے جنہیں ویدوں میں داس یا دسیوقبائل کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ان کے لئے داس(غلام) کی اصطلاح حقارت اور نفرت کے اظہار کے لئے استعمال کی گئی تھی ۔آریوں سے مسلسل جنگوں کے دوران بہت سے دراوڑ غیر جانب دار ہوگئے اور بعض نے ان کی اطاعت تسلیم کرلی ۔جن لوگوں نے آریوں کی اطاعت تسلیم کی انہیں ’غدار ‘ اور ’خائن‘ کہاگیا۔دراوڑوں نے جب اپنی شکست کو حتمی مان لیا تو وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر روپوش ہوگئے ۔ایک بڑی تعداد نے جنوب ہند کی طرف ہجرت کی ،جہاں آج بھی دراوڑ آباد ہیں ۔فتح کے بعد آریوں نے غیر جانبداردراوڑوں کو حکومتی معاملات سے دوررکھا ۔انہیں زراعت اور مویشی پالنے کی ذمہ دار دی گئی ۔جن لوگوں نے جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا انہیں انعام و اکرام اور جاہ ومنصب سے نوازا گیا ۔بعض تاریخی شواہد کے مطابق آریوں نے انہیں حکومت کی باگ ڈورسونپ دی اور کھشتری(محافظ) کاخطاب دیا۔لیکن جن لوگوں نے میدان جنگ میں ان کے خلاف بہادری اورجواں مردی کا مظاہرہ کیا تھا، فتح یابی کے بعد انہیں ’شودر‘ کا درجہ دے کر سماجی طورپر الگ تھلگ کردیا ۔انہیں آبادی سے دور بسایاگیا اور انتہائی پست درجہ کے فرائض ان کے سپرد کئے گئے ۔فتح کے بعد آریوں نے مفتوحہ قوموں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا ۔انہیں جانوروں کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور کیا۔ان کے مال میں تصرف کو حلال سمجھا ۔ان کی عورتوں کی عصمت دری کی گئی ۔فتح کے بعد کنواری لڑکیوں کو بطورہدیہ پروہتوں اور برہمنوں کو دیا گیا،اس طرح مفتوحہ قوموں کی تذلیل کی گئی۔


دراوڑوں کے ساتھ ایک بڑاالمیہ یہ پیش آیا کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دین و عقائد کی حفاظت نہیں کرسکے ۔امتداد وقت کے ساتھ ان کی تہذیب وثقافت پر آریائی تمدن غالب آتا گیا ۔مذہبی رسم و رواج کی ادائیگی میں بھی انہوں نے آریوں کے رواجوں کی اتباع شروع کردی ۔مورخین کے بقول اگر جنوب ہند کی دراوڑ قومیں نہ ہوتیں تو ہندومذہب کے نقوش مٹ گئے ہوتے ۔دراوڑوںنے اپنے دین وعقائد اور تہذیب وثقافت کو آریائی رسم ورواج میں شامل کردیا ۔آج دراوڑ بھی ہندوکہلاتے ہیں جبکہ ان کا ہندومذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس تبدیلیٔ مذہب کو نہ جبری کہاجاسکتاہے اور نہ اختیاری ۔بلکہ یہ اپنی تہذیب وثقافت اور دین وعقائد سے غفلت کا نتیجہ ہے ،جس نے دراوڑوں کو ان کی اصل سے دور کردیا۔جس وقت آریوں کے خلاف مختلف تحریکیں معروض وجود میں آئیں جن میں بدھ مت کو خاص اہمیت حاصل ہے ،اس وقت جنوب ہند کے برہمنوں نے ہی اس تحریک کا مقابلہ کیا ۔واقعیت یہ ہے کہ جنوب ہند نے ہندومذہب کونئی زندگی بخشی ،جس کے لئے آریوں کو مفتوحہ دراوڑوں کا احسان مند ہونا چاہیے ،جبکہ آریوں نے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتااور طبقاتی نظام کو فروغ دیاجس کی گرفت سے آج تک ہندوسماج آزاد نہیں ہوسکا ۔


ہندوستان میں مسلمانوں کے داخلے کے بعداسلامی تہذیب و ثقافت نے جس تیزی سے مقامی باشندوں کو متاثر کیا اس کی نظیر نہیں ملتی ۔محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے پہلے اسلامی تعلیمات ہندوستان پہونچ چکی تھیں۔ خود سرکار رسالت مآبؐ دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی تعلیمات کے ابلاغ و ترسیل سے غافل نہیں تھے ۔بعض شواہد کے مطابق دور رسالت مآبؐ میں ہی آپ کا پیغام ہندوستان پہونچ چکا تھا ۔اس کے بعد خلافت راشدہ کے عہد میں مسلمان ہندوستان آتےرہے ۔محمد بن قاسم کے حملے کے بعد مسلمان بڑی تعداد میں ہندوستان میں وارد ہوئے اور اس سرزمین کو اپنا مسکن قراردیا۔تاجروں نے ہندوئوں کے ساتھ زیادہ میل جول بڑھایا ۔حتیٰ کہ ان کے ساتھ شادیاں بھی کیں ،جنہیں کبھی ’لوجہاد‘ کا نام نہیں دیاگیا۔یہ شادیاں مقامی لوگوں کی مدد،ان کے ساتھ دوستانہ روابط کے فروغ اور مقامی تہذیب و تمدن کی تفہیم کے لئے ہوتی تھیں ۔


۱۷۱۱ء کے بعد ہندوئوں کی حیثیت ’ذمیوں‘ کی تھی ۔یعنی مسلمان حکومتیں انہیں تحفظ اور دوسری شہری سہولیتں فراہم کرتیں،اس کے عوض میں ان سے ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔مسلمان حکومتوں میں ہندوئوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں ہوا بلکہ فراماں روا کے بدلتے ہی ’ذمیوں‘ کے ساتھ روا پالیسی میں بھی تبدیلی رونما ہوتی تھی ۔لیکن کسی مسلمان بادشاہ نے ہندوئوں کو مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا ۔ حکومتوں نے ہندوستان کے مقامی باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک ضرور روا رکھالیکن انہیں مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا ۔اس کے دوبڑے سبب ہیں ۔ایک تویہ کہ تبدیلیٔ مذہب کی تحریک ہندوئوں کو حکومت کے خلاف متحد کرنے کاذریعہ بنتی اور حکومت ہندوئوں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتی تھی ۔اس طرح حکومتوں کے لئے مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر حکومت کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوتا ۔چونکہ مسلمان ہندوستان میں اکثریت میں نہیں تھے لہذا وہ ملک کی اکثریت کو اپنا دشمن نہیں بناسکتے تھے ۔اس لئے انہوں نے ’ذمی‘ کی حیثیت سے انہیں قبول کیا ۔البتہ شہری حقوق ہر فرماں روا کے عہد میں مختلف نظر آتے ہیں لیکن جبری طورپر تبدیلیٔ مذہب کی تحریک نظر نہیں آتی ۔


دوسرا سبب یہ تھاکہ حکومت اتنی بڑی آبادی کا بالجبر مذہب نہیں بدلواسکتی تھی۔بظاہر پہلے اور دوسرے سبب میں کوئی فرق نظر نہیں آتا،لیکن ایک بنیادی فرق موجود ہے ۔ہندوئوں کا اتحاد مزاحمت اور بغاوت کا ذریعہ بنتا جس کونظر انداز کرنا حکومت کے لئے مناسب نہیں تھا ۔ہندوراجائوں سے جنگ کرنا مسلمان ریاستوں کے لئے مشکل نہیں تھا لیکن عام ہندوآبادی کے ساتھ متصادم ہونا ممکن نہیں تھا ۔ابتدامیں مسلمان فوجی حیثیت سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے لہذا ایک فوج جس کی تعداد مقامی ہندوئوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی ،ہندوئوں کےساتھ ٹکرانے کی تاب نہیں رکھتی تھی ۔اس لئے ہمیشہ مسلمان فرماں رائوں نے ہندوئوں کے ساتھ رحیمانہ اور دوستانہ سلوک روا رکھا ۔انہیں مذہبی و معاشرتی آزادی دی گئی تاکہ وہ خود کو غلام تصورنہ کریں ۔البتہ تبدیلیٔ مذہب میں صوفیوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔صوفیا کے لئے مسلمان فاتحین ہندوستان کی سرزمین کو ہموار کو کرچکے تھے ۔ہندوستان عرب ملکوں کے مقابلے میں زیادہ خوش حال اور مذہبی سرگرمیوں کے لئے کشائش یافتہ ملک تھا ۔عرب میں فرقہ پرستی عروج پر تھی ۔ایک دوسرے کو کافر کا الزام دے کر قتل کرنا عام تھا ۔خاص طورپر مسلم اقلیتوں کو دبانا اور انہیں رفض کے الزام میں قتل کردیا جاتا تھا ۔اس لئے علما اور افاضل نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی ۔صوفیا کی ہندوستان آمد کے بعد مذہب اسلام کی تبلیغ کی بنیاد پر ہندوئوں میں تبدیلیٔ مذہب کی تحریک نے عروج پایا ۔تصوف نے نیچ اور پسماندہ طبقات کو برابری کا تصور دیا جس کا انہوں نے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا ۔بقول این۔میری۔شمل:’’تصوف کے مرکزوں میں ہندواس عوامی برابری کا لطف اٹھاتے جس کا انہیں پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا ۔اس عوامی برابری نے انہیں بنیادی مسلم عقیدوں اور رواجوں کی طرف راغب کیا ‘‘۔(عظیم مغلوں کی مملکت ،تاریخ،فن اور ثقافت۔این میری شمل ۔ص۱۴۱)
صدیوں سے برہمنوں نے دلت اور پسماندہ طبقات کے ساتھ جو غیر انسانی رویہ اپنایا ہواتھا،اس کو صوفیا کی تحریک نے شکست دی ۔پسماندہ ذاتیں جوق در جوق خانقاہوں کا رخ کرنے لگیں جہاں انہیں برابری کادرجہ دیا جارہاتھا ۔رفتہ رفتہ یہ لوگ مذہب اسلام کی طرف راغب ہوئے ،لیکن یہ تبدیلی اختیاری تھی اجباری نہیں ۔