وزیر مالیات ارن جیٹلی نے سال ۶۱۰۲ کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کردیا ہے۔بجٹ میں کسے کیا ملا ا س مسئلے پر ماہرین مثبت اور منفی رائے پیش کررہے ہیں۔مگر اکثریت نے اس حقیقت کا اعتراف کیاہے کہ اس بجٹ کی بنیاد پر عوام کے اچھے دن نہیں آئیں گے۔کانگریس مرکزی حکومت پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ ”یہ سرکار سوٹ بوٹ والوں کی سرکار ہے“بجٹ میں ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ کانگریس بھی ان سوٹ بوٹ والوں کے احسانات کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔بجٹ میں آئندہ ریاستی انتخابات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔اترپردیش اور مغربی بنگال میں انتخابات متوقع ہیں۔ان ریاستوں کے دیہی علاقوں میں اکثریت کسانوں اور مزدوروں کی ہے۔شہروں کی آبادیاں بھی مزدور پیشہ طبقہ سے خالی نہیں ہیں اس لئے حکومت نے کوشش یہ کی ہے کہ بجٹ میں دونوں ریاستوں کے کسانوں اور مزدوروں کو لبھایا جائے۔مگر جن دیہی علاقوں اور قصبوں کی سرکار بات کررہی ہے بجٹ میں انکی ضروریات اور در پیش مسائل کے حل کو پیش نہیں کیا گیاہے۔وزیر مالیات کو ان علاقوں کے مسائل کا مجموعی احتساب پیش کرنا چاہئے تھا تاکہ اسکی روشنی میں بجٹ کا جائزہ لیا جاتا مگر چونکہ وزیر مالیات خود وزیر اعظم اور انکے دیگر عہدیداران دیہی علاقوں اور کسانوں کے مسائل کو صرف سرکار ی کاغذوں میں تلاش کرتے ہیں اس لئے بجٹ بھی فقط انہی اعدادو شمار تک محدود رہا۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ وزیر مالیات اور دیگر اہم اداروں کے کارکنان کے ساتھ ایک بار دیہی علاقوں کا دورہ کریں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ کسانوں اور مزدوروں کے بنیادی مسائل سرکاری اعدادوشمار سے کس حدتک مختلف ہیں۔اس طرح وزیر اعظم بیرونی ممالک دوروں کے لئے مخالفین کی تنقید سے بھی محفوظ رہیں گے۔

ہمارے ملک میں اکثریت ان کسانوں کی ہے جو اپنے کھیتوں کی پیداوارکے منافع سے اپنی عام ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کرسکتے ہیں۔حکومت صرف ان کسانوں پر توجہ کرتی ہے جنہیں ہم زمیندار کہہ سکتے ہیں۔پہلے تو حکومتیں ”کسان اور زمیندار“ کے بنیادی فرق کو سمجھتے ہوئے کسانوں کی ضرورتوں کو سمجھیں اور انکے مسائل کوحل کرنے پر توجہ دیں۔یہ زمیندار کسان نہیں ہیں اور نہ کبھی کسانوں کے مسائل سے دوچاررہے ہیں۔غریب جب اپنی فصل کے منافع سے اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کرپاتاہے یا سال بھر کے اناج کے علاوہ اسکے پلے کچھ نہیں پڑتا اس وقت وہ بینکوں یا بنیوں سے قرض لیتاہے۔ان بنیادی ضرورتوں میں بیماری کا علاج،گھر کی مرمت،شادی بیاہ کے اخراجات،سال بھر کی دیگر ضرورتیں شامل ہیں۔یہ ضرورتیں وہ کسان کبھی اپنی زمین کے منافع سے پوری نہیں کرسکتاہے جو دس بیس بیگہہ زمین کا مالک ہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ سرمایہ داروں،بنیوں یا بینکوں سے قرض حاصل کرتاہے۔قرض کی عدم واپسی کی صورت میں کسان کی زمین پرسرمایہ داروں کا قبضہ ہوجاتاہے،انکے کھیت کھلیان اور باغیچے نیلام ہوتے جارہے ہیں اور بیچارا کسان اپنی مفلسی اور تقدیر کا ماتم منانے پرخودکشی کو ترجیح دیتاہے۔ جنکا ضمیر اسکی اجازت نہیں دیتا وہ شہروں میں محنت و مزدوری کے لئے نکل جاتے ہیں۔اس وقت زیادہ ترکسان یا تو مزدوری کررہے ہیں یا سرمایہ داروں اور بینکوں کے مقروض ہیں۔کسان مزید قرض کی سہولتیں نہیں چاہتا ہے،وہ چاہتاہے کہ اسے اسکی فصل کی مناسب قیمت ملے۔اسکی ترقی اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے صرف منصوبہ بندی نہ ہو بلکہ واضح اقدامات کئے جائیں۔

کسانوں کے بنیادی مسائل میں وہ استحصال اور دھوکہ دھڑی بھی شامل ہے جو منڈی مالکان کرتے ہیں۔ کسان کھیتوں میں سبزیاں اگاتاہے مگر منڈیوں میں وہ کوڑیوں کے بھاؤ فروخت ہوتی ہیں۔منڈی مالکان اور دیگر افرادکی ساز باز سے کسان کی فصل تقریبا اس سے مفت حاصل کرلی جاتی ہے او پھر بازاروں میں وہ چیزیں اسی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں جس قیمت پر وہ پہلے سے موجود ہیں۔یہ استحصال اور دھوکہ دھڑی کی صورتحال چھوٹے شہروں اور قصبوں میں زیادہ ہے کیونکہ یہیں سے خریدا ہوا مال بڑے شہروں کی منڈیوں میں بھیجا جاتاہے۔ کسان کو اسکی فصل کا صحیح دام ملے یہ حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے۔       

اس سال دھان کی فصل میں کسانوں کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا اسکا جائزہ نہ مرکزی حکومت نے پیش کیا اور نہ کسی ریاستی حکومت نے اسکا احتساب کیا۔ بارش کے نہ ہونے کی بنا پر جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ مگر دھان کو منڈیوں میں کس قیمت پر خریدا گیاہے یہ اہم مسئلہ ہے۔سرکار صرف موٹے چاول کی قیمت طے کرتی ہے اسکے علاوہ دوسری دھان کی فصلیں بنیوں اور کارپوریٹ گھرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جاتی ہیں۔وہ جس قیمت پر چاہتے ہیں خریدتے ہیں او ربہانہ ہوتا ہے کہ عالمی بازاروں میں چاول کی قیمتیں سستی ہیں۔حکو متیں چاہیں تو کسانوں کے یہ بنیادی مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں مگر کارپوریٹ گھرانوں اور بنیوں کی مخالفت کرکے حکومتیں اپنا نقصان کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ دھان کی فصل کسانوں سے اونے پونے داموں حاصل کی جاتی ہے مگر شہروں میں چاول کی قیمت کم نہیں ہوئی۔قصبوں اور چھوٹے شہروں میں یہ قیمتیں ضرور کم ہیں مگر بڑے شہروں میں جوں کی توں ہیں۔اس کالا بازاری پر قابو پانے میں حکومتیں ناکام ہیں۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرکزی یا ریاستی حکومتوں میں ایک وزیر بھی کسان نہیں ہے یا اسکا خاندانی پس منظر کسانی نہیں رہا ہے۔حکومتوں کا کوئی وزیر کسانوں کی مشکلوں اور ضرورتوں کو سمجھنے کے لئے انکے درمیان نہیں جاتا ہے۔یہ جانا اس وقت ہوتاہے کہ جب کوئی کسان مفلسی یا قرض کے مطالبہ سے تنگ آکر خودکشی کرلیتاہے یا پھر انتخابات کے لئے وزیر محترم دورے پر ہوں۔کسان کو ہر حکومت اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہے۔انھیں ترقی اور بہبود کے سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں اور بیچارا غریب کسان ہر بار انکے جھانسے میں آجاتاہے۔

وزیر مالیات نے بجٹ میں پٹرول کے دام کم کئے اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔کیا وزیر مالیات کو علم نہیں ہے کہ ملک کی اکثرکسان آبادی ڈیزل کے استعما ل پر منحصر ہے۔پٹرول کی ضرورت نسبتا انہیں کم ہوتی ہے مگر ڈیزل کسانی کی بنیادی ضرورت ہے۔اس وقت کچے تیل کی قیمتیں بہت کم ہیں۔سرکار چاہتی تو کسانوں کو مزید سہولتیں دے سکتی تھی۔ڈیز ل کی قیمت میں کمی کی جاسکتی تھی تاکہ کسانوں کو فصلوں کی آبیاری میں آسانی ہوتی یا ڈیزل کے حصول میں چھوٹے کسانوں کو خاص رعایت دی جاسکتی تھی۔

کسان یہ چاہتا ہے کہ جس طرح ہر مہینہ سرکار ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کردیتی ہے،کھاد آسانی سے بازار میں دستیاب نہیں ہوتاہے۔خاص طور پر اترپردیش میں یوریا اور ڈی وی پی کی  کالابازاری عروج پر ہے جس میں سرکاری گودام بھی شامل ہیں۔ اس بنیاد پرکسان کو اصل سے زیادہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔ہر سال کھاد کی قیمت میں اضافہ ہوجاتاہے مگر فصلوں کی قیمت میں دس بیس روپے سے زیادہ اضافہ نہیں کیا جاتاہے۔فصل کی اگائی دوائیوں پر منحصر ہوتی ہے مگر دوائیوں کی قیمت میں کمی نہیں کی جاتی۔جتنے منصوبے فصلوں کو بہتر بنانے کے سامنے آتے ہیں وہ عام کسانوں تک کس حد تک پہونچتے ہیں حکومتیں اسکا جائزہ لیں اور پھر اپنی فلاحی منصوبہ بندیوں کی ناکامی کا احتساب کریں۔حکومت کی ہر اسکیم اور ہر فلاحی منصوبہ بڑے زمینداروں کے کھیتوں سے باہر نہیں نکلتاہے۔اس طرح بڑا زمیندار مزید بڑا ہوتا جارہا ہے اور چھوٹا زمیندار اپنی زمینوں کی نیلامی پر مجبور ہوتا جارہاہے۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کے نیتجہ میں فصل کا جو معاوضہ کسان کو دیا جاتاہے کیا وہ معاوضہ کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے۔دس بیس بیگھہ فصل کی تباہی کا معاوضہ ڈھائی ہزار سے دس ہزار روپے تک دیا جاتاہے۔سرکار کسانوں کے لئے کتنا بجٹ پاس کرتی ہے ہمیں اسکی خبر نہیں مگر جو رقم کسانوں تک پہونچتی ہے اسکی حقیقت یہی ہے۔معاوضہ کی یہ رقم سرکاری افسر پٹواریوں کی ملی بھگت سے ڈکار جاتے ہیں اور سرکار ہر بار ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتی ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا معاوضہ کسانوں کو دیدیا گیاہے۔یہی وجہ ہے کہ کسان یا تو کسانی چھوڑ رہے ہیں یا حکومتوں کی عدم توجہی کی بنیاد پر تشدد پر آمادہ ہوتے ہیں۔اس وقت ملک میں دالوں کی قلت کا رونا رویا جارہا ہے۔اسکی ایک وجہ کسانوں سے حکومتوں کی عدم توجہی ہے۔اگر حکومتیں کسانوں کے مسایل کا اخلاص کے ساتھ جائزہ لیں ملک میں اناج کی قلت کی دشواریاں ختم ہوجائینگی ورنہ کبھی دالوں کی قیمت آسمان پر ہوگی اور کبھی پیاز کی قیمت خون کے آنسورلوائیگی۔

آزادی کے بعد سے آج تک کسان کو حکومتوں اور سرمایہ داروں نے صرف ٹھگا ہے۔کیا اچھا ہوتاکہ اگر مرکزی اور ریاستی حکومتیں مل کر کسانوں کے اچھے دنوں کے لئے کام کرتیں۔مگر یہاں تو آفت یہ ہے کہ مرکزی حکومت ریاستی قیادت کو ذمہ دار ٹہرادیتی ہے اور ریاستی سرکاریں مرکزی حکومت کی ریاست سے عدم توجہی کا رونا روتی رہتی ہیں۔ایسے میں غریب کسان خودکشی نہ کرے تو اور کیا کرے۔؟

 

عادل فراز لکھنؤ

09936066598