مصر میں سنہ 2013ء کے بعد پولیس اور نام نہاد عدلیہ کے ہاتھوں ایسے ایسے عجوبہ روگاز اور ناقابل یقین واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے کہ انہیں سن کر انسان دریائے حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔

ذراےُ کے مطابق ’اخوان فوبیا‘ کا شکار مصر کے سیکیورٹی اداروں اور عدلیہ کا ساڑھے تین سال کے ایک کم سن بچے کو قتل، لوٹ مار اور اقدام قتل کےالزامات میں عمر قید اور اس کے والد کو باعزت بری کرنے کا تازہ کارنامہ سامنے آیا ہے۔ مصر سمیت دنیا بھر میں مصری فوجی سرکار کی عدلیہ پر خوب لعن طعن کی جا رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق حال ہی میں مصر کی ایک فوجی عدالت نے ملٹری پراسیکیوٹر کی ہدایت پر مارچ 2014ء میں شمالی مصر کی الفیوم گورنری میں پرتشدد مظاہرے میں حصہ لینے، قومی املاک کی توڑپھوڑ، قتل اور اقدام قتل کے الزامات میں 115 افراد کو عمر کی سزائیں سنائی گئیں تو ان میں ایک نام منصور قرنی احمد علی کا بھی شامل تھا۔ سزا کے وقت اس بچے کی عمر صرف تین سال اور پانچ ماہ تھی۔ کیس تیار کرنے والے، اس کی تحقیق اور چھان بین کرنے والے اور سزائیں سنانے والے ججوں میں سے کسی کی توجہ اس کم سن ’مجرم‘ کی جانب نہیں گئی جسے اپنی ماں کادودھ چھوڑے ابھی چند ماہ بھی نہیں ہوئے کہ اسے قتل اور لوٹ مار جیسے سنگین الزامات کا قصور قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

مصری عدلیہ اور پولیس دونوں کے اس انوکھے فیصلے کی اصل وجہ بچے اور اس کے والد کے ناموں میں مغالطہ بنا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ پر بھی یہ پہیلی اس وقت کھلی جب کم سن ملزم کے وکیل محمود حمدی نے بتایا کہ دراصل سزا بچے کو نہیں بلکہ اس کے والد کو سنائی گئی تھی مگر ناموں کی وجہ سے لگنے والے مغالطے نے عدلیہ کو تماشا بنا کر رکھ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ بچے کے والد جو کہ اصل ملزم ہیں کا نام احمد منصور قرنی شرارہ ہے۔ نام میں یکسانیت نے تفتیش کاروں اور ججوں سب کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیا تھا۔