اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر جابرانہ قبضے کے خلاف ایک مرتبہ پھر کڑی تنقید کی ہے۔ایک روز قبل بھی انھوں نے اسرائیل کی قبضے کی کارروائیوں پر کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر انتہا پسند صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

بین کی مون نے واضح کیا ہے کہ وہ غربِ اردن میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کے لیے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اقوام متحدہ میں متعیّن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ سیکریٹری جنرل صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو پر اس امید میں دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات بحال کرنے پر آمادہ ہوجائیں تاکہ ان کی عالمی ادارے کی سربراہی کے آخری سال میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی پیش رفت ہوسکے۔

بین کی مون نے اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے فلسطینی حقوق کے اجلاس میں کہا ہے کہ ”قریباً پچاس سال کے قبضے اور اوسلو معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کے انتظار میں برسوں گزارنے کے بعد اب فلسطینی امید کا دامن چھوڑتے جارہے ہیں”۔

انھوں نے کہا کہ ”نوجوان لوگ خاص طور پر مایوسی کا شکار ہورہے ہیں،وہ قبضے کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف غیظ وغضب کا شکار ہیں”۔بین کی مون نے منگل کے روز کہا تھا کہ ”قبضے کے خلاف ردعمل ظاہر کرنا انسانی فطرت ہے”۔ اس بیان کے ردعمل میں بنیامین نیتن یاہو نے بین کی مون پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا الزام عاید کردیا تھا۔

سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا لیکن سکیورٹی کریک ڈاؤن اسرائیلی ،فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے کامیاب ثابت نہیں ہوگا۔

انھوں نے تنازعے کے حل کے لیے فریقین کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر زوردیا ہے اور کہا ہے کہ ”1967ء سے جاری قبضے کے خاتمے، تنازعے کے حل اور فلسطینی ریاست کے قیام کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں”۔

بین کی مون نے کہا کہ ”فلسطینیوں نے نصف صدی تک بیانات سنے ہیں،جن میں اسرائیل کے قبضے کی مذمت کی جاتی رہی ہے لیکن ان کی زندگیاں بہتر نہیں ہوئی ہیں۔ہم نے بیانات جاری کیے ہیں،تشویش کا اظہار کیا ہے،یک جہتی کا اظہار کیا ہے لیکن فلسطینوں کی زندگیاں تبدیل نہیں ہوئی ہیں اور بعض فلسطینی حیران ہیں کہ کیا اس سب کا مطلب وقت گزاری ہے”۔

”وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس سب کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان نا ختم ہونے والی بحثوں کو دیکھتے ہی رہیں کہ زمین کو کیسے تقسیم کیا جائے گا جبکہ زمین معدوم ہوتی جارہی ہے”۔بین کی مون کا فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کی جانب اشارہ تھا۔

انھوں نے اسرائیل پر یہ کڑی نکتہ چینی اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کے حالیہ واقعات کے تناظر میں کی ہے جبکہ صہیونی ریاست نےمقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے۔اقوام متحدہ اسرائیل کی اس توسیع پسندی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس طرح مستقبل میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کی اراضی ہتھیائی جارہی ہے جس سے تنازعے کے مذاکرات کے ذریعے حل کے امکانات بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔