لکھنو:اترپردیش اردواکادمی میں اس بار ایوارڈ کی تقسیم کے اعلان کے بعد پوری ریاست میں ہنگامہ مچ گیا ہے ۔اکادمی ممبروں کے ایک بڑے طبقے کے ساتھ ہی محبان اردو نے بھی سوال کھڑے کئے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اکادمی کی چیرپرسن سمیت کئی ممبروں کو ایوارڈ دئے جانے کااعلان کرنا افسوسناک ہے ۔بلکہ ایک ممبر نے تو یہاں تک کہا کہ اس پوری کارروائی کو ختم کرکے از سرنودوبارہ میٹنگ بلائی جائے اور ایوارڈ کے سلسلے میں پھر سے غور کرکے اعلان کیاجائے ۔ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی دارے کا مکھیا یا سربراہ اور اس کے ممبران خود ہی اپنے لئے ایوارڈ کاانتخاب کیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ اردواکادمی پرسوال کھڑے ہورہے ہیں۔واضح رہے کہ اردو اکادمی کی چیئرپرسن پروفیسر آصفہ زمانی نے ایک لاکھ روپئے والے ڈاکٹر صغری مہندی ایوارڈ سے خود کوہی نوازلیا ہے۔ صرف یہی نہیں اردو اکیڈمی کے ممبر پروفیسرعباس رضا نیئر نے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے والے امیر خسرو ایوارڈ اور پروفیسر آفتاب احمد آفافی کو ایک لاکھ پچاس ہزار روپے والے پروفیسرحسن ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔

اردواکادمی کے ممبر ندیم اختر سمیت کئی دیگر اراکین نے ایوارڈوں کے اعلان سے قبل میٹنگ میں دونوں ممبران اور چیئرپرسن کے ناموں پر اعتراض کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی کی تھی اور کہا ایسا کرنا اس ادارے کے حق میں اچھا نہیں ہوگاساتھ ہی اس کی شفافیت پرسوال اٹھیں گے مگر اس کے باوجودپروفیسرعباس رضا نیئر،پروفیسر آفتاب احمد آفافی اور خود چیرپرسن نے اپنے ناموں کا اعلان کرایا۔اور اپنے اثرورسوخ ودبدبے کی وجہ سے مخالفین ممبران کو بالآخر خاموش کرادیا گیا۔مسٹر ندیم اختر نے بتایا کہ اس بار الگ سے کچھ ایوارڈ کریئٹ کئے گئے جس کی میرے علاوہ کئی ممبران نے مخالفت کی مگر کسی کی ایک نہ سنی گئی اور من مانے طریقے سے چیرپرسن کی طرف سے ایوارڈ کی تقسیم میں ناموں کااعلان کیا گیا ،جو آج ہنگامے کی شکل میں سامنے ہے ۔انہوںنے کہا کہ سرکار نے ہمیں یہاں اس لئے بھیجا تھا تاکہ ہر کام شفاف طریقے انجام کو پہونچا یاجائے مگر اپنے ہی لوگ اپنے مفاد کی خاطر عوام کے پیسے کا بے جا استعمال کررہے ہیں جوافسوس ناک ہے ۔مسٹر ندیم نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوارڈ تقسیم کے اعلان کی ساریکارروائی کو منسوخ کرکے ازسرنو میٹنگ بلائی جائے اور دوبارہ غور کرکے ناموں کا اعلان کیا جائے تاکہ برپاہوئے ہنگامے کوروکاجاسکے۔