بلندشہر سے سات کیلومیٹر کے فاصلہ پر دہلی روڑ پر واقع قصبہ ’دریاپور‘ میں 150 سالہ پرانے اسکول ”مفتاح العلوم“ کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے دریاپور میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں اسکول کے ذمہ دار اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ اسٹیٹسٹک کے سابق سربراہ ڈاکٹر ثناء اللہ علیگ، النور پبلک اسکول سنبھل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی، مسلم ایجوکیشن فنڈ، نئی دہلی کے ڈائرکٹر ظفر نواز ہاشمی، ہوپ این جی او (نئی دہلی) کے سربراہ ڈاکٹر سمیع الرحمن، سماجی کارکن اور مسلم ایجوکیشن فنڈ کے روح رواں ڈاکٹر شفاعت اللہ خان، جامعہ ملیہ اسلامیہ المنائی ایسوسی ایشن کے سابق صدر انجینئر خورشید انور، ریاض (سعودی عرب) سے تشریف لائے مولانا عبدالرحمن عمری، کمال پور کے مولانا انور احمد خان اور دریاپور کی مختلف شخصیات نے شرکت کی۔ قدیم ادارہ کی موجودہ صورت حال پر تمام حضرات نے تشویش کا اظہار کرکے زوال کے اسباب پر غور وخوض کرنے کے بعد طے کیا کہ مفتاح العلوم اسکول، دریاپور کو انگریزی میڈیم اسکول میں تبدیل کرکے دریاپور پبلک اسکول (DPS) کے نام سے از سر نو شروع کیا جائے، البتہ اردو زبان کی تعلیم اور دینی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ بچے عصری علوم سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بنیں۔ علاقہ کے لوگوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں اس اسکول نے بڑی خدمات انجام دی ہیں، چنانچہ تبلیغی جماعت کے عالمی اہم رکن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ثناء اللہ خان، جازان (سعودی عرب) یونیورسٹی، شعبہ زولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر احمد، اترپردیش ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے سابق سربراہ عبد السلام خان، شعبہئ سیلاب کنٹرول، دہلی کے انجینئر محمد فاروق اور ریاض (سعودی عرب) کی ایک مشہور کمپنی کے پلانٹ مینیجر انجینئر خورشیدانور جامعی ودیگر متعدد علمی شخصیات نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز اسی اسکول سے کیا ہے۔ آس پاس کے تقریباً 10 گاؤں میں کوئی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے چند سال پہلے تک آس پاس کے سارے بچے اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ سات ہزار آبادی والے دریاپور قصبہ میں تقریباً 70 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ اسی سال شہر سنبھل میں قائم شدہ النور پبلک اسکول (APS) کے طرز پر دریاپور پبلک اسکول (DPS) میں بھی عصری علوم کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کا خاص نظم کیا جائے گا۔ وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ انگریزی میڈیم اسکولوں اور کالجوں کا قیام کرکے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا معقول بندوبست کیا جائے کیونکہ اب والدین اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں وکالجوں میں ہی تعلیم دلاکر اُن کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے ہیں اور نئی نسل کو ضروری دینی معلومات اسکولوں کے ذریعہ ہی فراہم کی جاسکتی ہے۔