تبصرہ: ڈاکٹر عفت ذکیہ

شعبہ اردو اسماعیل مہیلا پی جی کا لج ، میرٹھ

سبک ہوچکی تھی ترازوئے شعر

مگر ہم نے پلہ گراں کردیا

میری قدر کراے زمین سخن

تجھے بات میں آسماں کردیا

نیا دور کا انیس نمبر نظروں کے سامنے ہے دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہو ر ہی ہے کیونکہ ابھی تک انیس پر کوئی خصوصی شمارہ منظر عام پر نہیں آیا تھا ۔یوپی ہی کیا جہاں تک میرے علم میں ہے پورے ہندوستان میں انیس پر کوئی نمبر نہیں نکلا ۔یہ شرف محکمہ ¿ اطلاعات و رابطہ ¿ عامہ اتر پردیش ،لکھنو ¿کو جاتا ہے کہ پہلی بار میر انیس کے حوالے سے کوئی ماہنامہ منظر عام پر آیا ۔قابل مبارکباد ہیں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی جن کو ادارت میں یہ کارنامہ انجام پایا ان کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اس شمارے کی 53 نگار شات میں ایک یا دومضامین کے علاوہ سبھی مضامین بالکل تازہ ترین ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے نام آور اہل قلم حضرات سے در خواست کر کے خصوصاً اس شمارے کے لئے تحریر کرائے ہیں ۔ہر مضمون اپنی جدا گانہ خصوصیت اور یکتائی کا حامل ہے۔ پورے شمارے کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے باب اول ”اخلاف و اسلاف“ میں پانچ مضامین شامل ہیں ۔باب دوم” آثار و اقدار“ چھ مضامین پر منحصر ہے جبکہ باب سوم” دیدھائے رنگا رنگ “شمارے کا سب سے طولانی باب ہے جس میں اکتیس مضامین شامل کئے گئے ہیں ،شمارے کا چوتھا اور آخری باب ”چیدہ و چنیدہ“ ہے جس میں گیارہ مضامین شامل ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی کاوش ایک ضخیم شمارے کی شکل میں قارئین کے سامنے ہے جو ان کی محنت اور جاں فشانی کا پتا دیتی ہے ۔

شمارے کا پہلا مضمون ”میر انیس کا سلسلہ خاندانی “ جو سید یوسف حسین شائق کا تحریر کردہ ہے ۔یہ مضمون ان کے قلمی مخطوطے سے نقل کیا گیا ہے شائق صاحب نے اس مضمون میں انیس کے سلسلہ خاندانی کی تفصیل پیش کی ہے اور واضح کیا ہے کہ میر انیس کا سلسلہ خاندانی حضور اکرم کے ساتویں اور آٹھویں جانشین امام مو سی کا ظمؑ اور امام علی بن موسی الرضاؑ سے ملتا ہے ۔اسی کے ساتھ شائق صاحب نے انیس کی جائے پیدائش، ان کی علمی استعداد، حلیہ اور ان کے کردار وغیرہ پر مختصراً اور جامع اندازمیں تبصرہ کیا ہے۔ دوسرا مضمون ”مرثیہ اور خاندان انیس “ میں رئیس حسین نے خانوادئہ میر انیس کی مرثیہ سے وابستگی کاذکر کیا ہے ساتھ ہی ان کی نسل کے چوتھے چشم و چراغ یوسف حسین شائق جوان کے بڑے فرزند میر نفیس کے نواسے میر علی محمد عارف کے فرزند تھے اور تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کر گئے تھے کی مرثیہ نگار ی کا تفصیلی جا ئزہ لیا ہے ۔ یو سف حسین شائق ایک کامیاب مر ثیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب محقق بھی تھے انہوں نے مراثی انیس کی چاروں جلدوں کی تصحیح کا دقت طلب کام انجام دیا ۔اس کے علاوہ تصنیف و تالیف کے حوالے سے بھی انہوں نے ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیں، مختلف موضوعات پر کئی کامیاب کتابیں تحریر کیں ۔اس مضمون میں یوسف حسین کی شخصیت اور فن کا مختصر جائزہ لینے کے علاوہ انیس کے مرثیہ”یا رب عروس فکر کو حسن و جمال دے “ جس کی تصحیح یوسف حسین نے کی ہے رئیس حسین نے اس کی تفصیل پیش کی ہے، یہ ایک کامیاب مضمون ہے ۔

شمارے میں شامل چار مضامین سیدعلی احمد دانش کے تحریر کرد ہ ہیں ۔علی احمد دانش جن کا چندماہ قبل انتقال ہوا ہے میر محمد عارف کے فرزند میر ہادی صاحب لائق کے فرزند تھے ۔چاروں مضامین علی احمد دانش کی غیر معمولی علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کا پتا دیتے ہیں ۔ان کا پہلا مضمون ”جس کی مجھے تلاش تھی “ اسم با مثمیٰ ہے ۔اس میں جس مرثیہ کا ذکر ہے اسے تلاش کرنے میں دانش صاحب نے اپنی زندگی کے40 قیمتی برس صرف کئے تب جاکے مرثیہ ان کے ہاتھ لگا دوسرے مضمون ”واجد علی شاہ اور میر انیس “ میں انہوں نے پہلی جنگ آزادی کے تباہ کن حالات کا لکھنو کی معاشرت پر اثر انداز ہونے’انگیریزی حکومت کے مظالم‘ واجد علی شاہ کی معزولی, میر انیس کی واجد علی شاہ سے وابستگی، سلطنت اودھ کی تباہی اور خصوصاًمیر انیس کے ناگفتہ بہ حالات پر میر انیس کا نوحہ وغیرہ تمام حالات کی مراثی انیس میںجامع انداز میں نشاندہی کی ہے ۔شمارے میں شامل علی احمد دانش کا ایک اور مضمون ”مرثیہ گوئی ،مرثیہ خوانی اور سپاہ گری “ جس میں انہوں نے انیس و دبیر اور ان کے بعد آنے والے مرثیہ نگاروں اور مرثیہ خوانوں خاص کر خاندان انیس کے افراد کی سپاہ گری سے آشنائی کا ذکر کیا ہے ساتھ ہی سامان حرب و ضرب کی ایک طویل فہرست اور تصاویر پیش کی ہیں۔ جن اسلحہ جات کا مضمون میں ذکر کیا گیا ہے،خاندان انیس کے ہر مرثیہ نگار نے اپنے مراثی میں ان کا ذکر کیا ہے ۔علی احمد دانش کا چوتھا مضمون ”مراثی انیس کا تتمہ “کے عنوان سے ہے ، جس میں ان کے ہاتھ کے لکھے مر ثیہ کامسودہ پیش کیا ہے ۔ 43بندوں کے اس مر ثیہ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے ہر بند پر میرصاحب نے لفظ تتمہ تحریر کیا ہوا ہے ۔شمارے میں شامل پروفیسر زماں آزردہ کا مضمون ”مرزا دبیر معترف میر انیس “ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مضمون میں زماں صاحب نے انیس و دبیر کے ما بین مشہور ایسی معرکہ آرائی کاذکر کیا ہے جس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے جو محض تفنن اور ریاستی مصلحتوں کے تحت وجود میں آئی نیز اس دور کے سیاسی حالات کے علاوہ شبلی نعمانی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ۔ پروفیسر آزردہ نے اس سچائی پر سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پردہ اٹھا یا ہے کہ در حقیقت میر انیس و مرزا دبیر میں آپس میں بہت الفت تھی ۔انیس کے انتقال پر14 اشعار پر مبنی دبیر کا لکھا ہوا قطعہ تاریخ جس کا آخری مصرعہ ”طور سینا بے کلیم اللہ منبر بے انیس “سے1874ءعدد نکلتے ہیں ، جو میر انیس کا سال انتقال ہے ۔ زماں صاحب نے اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ المختصر اس مضمون نے لوگوں کے درمیان پھیلی اس غلط فہمی کو دور کیا ہے کہ میر انیس و مرزا دبیر میں آپسی رنجش رہا کرتی تھی ۔ اس کے مقابلے شمس الرحمٰن فاروقی اپنے مضمون مرثیے کی معنویت میں اشار تاً شبلی نعمانی کے ذریعے دبیر پر جو رائے قائم کی گئی ہے اسے مرثیے کے لئے نا قابل فراموش اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں ۔تاہم دبیر کے حماےتیوں کی طرف سے اٹھنے والے اعتراضات کی وجہ مرثیے کا عقیدت سے انسلاک ہونے کے باعث لوگوں کی مرثیہ سے متعلق نکتہ چینی کی مخالفت کا رجحان بتاتے ہیں ۔”میر انیس ماہر آئین فطرت“ میں پروفیسر مجاور حسین نے مراثی انیس میں فطرت نگاری کا ہر پہلو سے جائزہ لیا ہے ۔ انہوں نے میر انیس کو کالی داس کی روایت کا پاسدار بتایا ہے جس طرح کا لی داس کی تصانیف میں فطرت کا حسن مثلاً دریا ، پہاڑ ،نباتات ، حیوانات،چرند ،پرند کے علاوہ ہندوستانی تہذیبی روایات مثلاً شادی بیاہ کی رسومات مہندی ، آئینہ وغیرہ کا ذکر ہے ۔ انیس کے یہاں بھی یہ تمام پہلو اپنی آن بان کے ساتھ نمایاں طور پر جلوہ گر نظر آتے ہیں ۔”میرانیس کے مراثی میں تاریخ اسلام “ مظفر سلطان حسن ترابی کاایک طویل مضمون ہے جس میں انہوں نے اہلبیت رسالت سے متعلق واقعات ،قرانی آیات اور احادیث ، اسلام کی جنگوں وغیرہ کا اجمالی جائزہ لیا ہے ۔ یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی تلاش وجستجو اور گہرے مطالعے کی نشاندہی کرتا ہے ۔شمارے کاایک اور طویل مضمون ”فردوسی و انیس ایک جائزہ“میں حسن عباس فطرت نے فردوسی کے شاہنامہ سے مراثی انیس کی مماثلت اور مفارقت پر روشنی ڈالی ہے ۔فطرت صاحب مراثی اینس اور شاہنامہ فردوسی کے ہر پہلو کا بڑی گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لینے کے بعد جن نتائج پر پہنچے انہیں خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس مقالے میں جہاں حسن عباس فطرت نے دونوں عظیم شاعروں کے کلام کا تجزیہ پیش کیا ہے وہیں ایک بات جو صاف محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ اس تجزیہ میں توازن کی کمی ہے۔ انیس کے مقابلے فردوسی کی شخصیت کو اجاگر کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ مقالے میں دو مقامات پر ایسی نا قابل فراموش غلطی سر زد ہوئی جو فطرت صاحب جیسے با بصیرت اور صاحب اسلوب شخصیت کے تعلق سے سوچنا بھی معیوب لگتا ہے مقالے میں ایک مقام پر مرزادبیر کے مشہور زمانہ مرثیہ ”کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے “کو انیس سے منسوب کیا گیا ہے علاوہ ازیں میرمونس کے سلام ”سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو “ شبلی کی پیروی میں انیس کا بتایا گیا ۔ اس سلام کو مونس کا ثابت کرنے کے لئے حوالے کے طور پر شمارے میں پروفیسر زماں آزردہ صاحب کا مضمون پیش کیا ہے جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی نے میر انیس کے مرثی میں جمالیات پر روشنی ڈالی ہے ۔ انہوں نے اپنے مضمون ” مراثی انیس میں جمالیات “ میں جمالیات کے منفرد اظہار کا مختلف پہلوﺅں سے جائزہ لیا ہے ۔ پروفیسر علی احمد فاطمی کا مضمون ”ترقی پسند تنقید کی انیس شناسی “ ایک منفرد مضمون ہے ۔ پروفیسر فاطمی نے جن ترقی پسند ناقدین کی انیس شناسی کا بڑی زیرک نگاہی سے جائزہ لینے کے بعد مختلف گوشوں کی نشاندہی کی ہے ان میں احتشام حسین ، سید محمد عقیل ، پروفیسر شارب ردولوی، محمد حسن ، راج بہادر گوڑ، صدیق الرحمٰن قدوائی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کی نگار شات کے مطالعے سے علی احمد فاطمی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ترقی پسند نقادوں نے کلام انیس کو مذہب یا مذہبی عقیدت سے آگے جا کر شاعری اور فن کے حوالے سے تو دیکھا ہی اس میں انسانیت ، سماجیت،مزاحمت اور کہیں کہیں بغاوت کے عناصر تلاش کئے ۔

شمارے کا ایک اور مضمون ”بالمیکی کی رامائن تلسی داس اور انیس “میں ڈاکٹرعابد حسین حیدری نے مراثی انیس کا بالمیکی کی رامائن تلسی داس کی رام چرت مانس کے حوالے سے جائزہ لیا اور نتیجہ کے طور پر ان فنکاروں کی تصانیف سے مماثلتیں اور تضادات پیش کئے ہیں ۔ڈاکٹر محمد تقی علی عابدی کا مضمون” انیس کے مرثیے میں علم الاعداد “ بھی انفرادیت کا حامل ہے اس مختصر لیکن جامع مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے میر انیس کے معرکة الآر امرثیے ” یا رب چمن نظم کو گلزار ارم کر “ کے کئی مصرعوں میں علم الاعداد کی نشاندہی کی ہے ۔سید باقر حسین نے انیس کے مرثیے ”جب حضرت زینب کے پسر مر گئے دونوں “میں صنعت غیر منقوط کی نشاندہی کی ہے اس مرثیہ میں چار بندوں میں اس صنعت کا استعمال کیا گیا ہے۔ شمارے میں شامل ڈاکٹر عباس رضا نیر کا مضمون ” انیس کی منظر نگاری “ ہے جس میں نیر میر انیس کے مراثی میں منظر نگاری کا مختلف زاویوںسے جائزہ لیتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیںکہ انیس کی منظر نگاری صرف مناظر تک محدود نہیں بلکہ مکالمہ ، گفتگو، رویہ ، رسم ورواج ،رجز، مبارز طلبی جنگ جیسے تمام واقعات و بیانات کو انیس منظر نامہ ہی بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ پروفیسر سید فضل امام رضوی کا مضمون ” میر انیس دہلی اور لکھنو ¿ کے لسانی امتیازات اور اتصالات“ ایک کامیاب مضمون ہے جس میں انہیں کے مراثی میں دہلی اور لکھنو ¿ دونوں دبستانوں کی خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ فضل امام صاحب نے اس مضمون میں یہ ثابت کیا ہے کہ میر انیس وہ واحد شاعر ہیں جن کے کلام میں دلی اور لکھنو ¿ کے دبستانوں کی خصوصیات بیک وقت نظر آتی ہیں میر انیس اس با کمال شاعر کا نام ہے جس کے یہاں ان دونوں جگہوں کی زبانوں کا سنگم ہے ۔ مو لانا سید حمید الحسن نے اپنے مضمون ”میر انیس اور عالم انسانیت “میں کلام انیس میں انسانیت کی بقا پر روشنی ڈالی ہے اس مقالے میں واقعہ کربلا کی تعلیمات کو کلام انیس کے آئینے میں پیش کیا گیا ہے ۔ عنبر بہرائچی نے اپنے مضمون” سنسکرت شعریات کے رس نظریہ کی روشنی میں میر انیس کے تخلیقی کار نامے “ میں کلام انیس میں رسوں( jlksa)کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میر انیس کی شاعری میں رسوں کی فراوانی ہے اس نظر یہ کے تعلق سے میر انیس اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔
خواتین کی نمائندگی کے لئے خصوصی شمارے میں چار مضامین شامل ہیں جن میں ”معترضین مرثیہ اور میر انیس “ ڈاکٹر شبینہ صغریٰ ” میر انیس کا لسانی ادراک “شمیم فاطمہ ” انیس کے مرثیوں میں نسوانی کردار “ ڈاکٹر نکہت جہاں ” فرہنگ انیس “ حبیبہ بانوشامل ہیں۔ چاروں مضامین اپنی اپنی خصوصیات کی بنا پر منفرد و یکتا ہیں ۔ ہر مضمون پر الگ الگ اظہار رائے اس طویل مضمون کو طویل تر بنا دیں گے لہٰذا یہاں فقط شمیم فاطمہ کے مضمون پر چند جملوں میں اظہار خیال پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ شمیم فاطمہ نے میر انیس کے لسانی ادراک کا کئی زاویوں سے جائزہ لیا ہے ۔ لسانی ادراک پر بڑی عالمانہ گفتگو کی گئی ہے یہ ایک مکمل اور جامع مضمون ہے جو محترمہ کی علمی صلاحیت کا پتہ دیتا ہے ۔ ”زندگی نامہ میر انیس “ میں ڈاکٹر وضاحت رضوی صاحب نے میر انیس کا مختصر تعارف پیش کیا ہے ۔ اس مختصر مضمون کے مطالعے کے دوران ایک بات جو سامنے آئی یہ ہے کہ” تعداد مراثی انیس “ کے آگے ڈاکٹر صاحب شاید مراثی کی تعداد لکھنا بھول گئے ہیں، انیس کے تلف ہو جانے والے اور چوری ہو جانے والے سرمایہ ¿ مراثی کے بارے میں تو بتایا لیکن جو سرمایا بچ گیا تھا یا جو آج ہمارے پاس موجود ہے اس کی تعداد ندارد ہے۔اس کے علاوہ سن وفات 1876ءکے بجائے 1976ءلکھا گیا ہے جو غالباً کتابت کی غلطی رہی ہو گی۔
شمارے میں ابھی کئی مضامین موجود ہیں جو خصوصی طور پر قابل توجہ اور قابل ستائش ہیں مگر اختصار کے پیش نظر تبصرہ میںآنے سے رہ گئے ۔ ایک خاص بات جوبصارتوں پر گراں گزرتی ہے وہ شاعری کی کتابت میں موجود اغلاط ہیں۔ پورے شمارے میں یہ کمی کثرت کے ساتھ موجود ہے ۔جگہ جگہ کتابت کا یہ جھول پروف ریڈر اور کاتب کی عدم شعر فہمی کی نشاندہی کرتا ہے شمارے میں شاعری کو مرکزیت حاصل ہونے کے باوجود اکثر مصرعے غیر موضوع اور بے وزن ہیں۔ کہیں کہیں تو شعر کا مفہوم ہی بد ل کر رہ گیا ہے مثلاً

آج ہیں نہتے روتے ہوئے گھر میں جاتے ہی۵۵۱

صحیح مصرعہ ۔آتے ہیں ہنستے روتے ہوئے گھر میں جاتے ہیں

ایسے بہت سے مصرعے میں نے نشانزدکئے ہیں جو طبیعت پر بہت گراں گزرتے ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر یہاں انکا ذکر بالکل حذف کیا جاتا ہے ۔ایسی لاتعداد مثالیںہیں جو نثر میں تو کم ہیں لیکن شاعری میں کتابت کی ان غلطیوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہر حال معدودے چند خامیوںسے قطع نظر میر انیس سے مخصوص اس ضخیم شمارے میں میر صاحب کی شخصیت اور فن کے حوالے سے ہر پہلو اور ہر زاویے سے مکمل معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔شمارے میں ریسرچ اسکالرز کے لئے اچھا مواد یکجا کر دیا گیا ہے۔ جو لوگ انیس پر کام کریں گے ، یہ خصو صی شمارہ ان لوگوں کے لئے بہت کار آمد ثابت ہوگا ۔یقینا انیس کی شاعری پر تحقیقی اور تنقیدی کام کرنے والے طالب علموں کے لئے یہ ایک جامع سر چشمہ ہے ۔ ڈاکٹر اطہر مسعود کا اشاریہ میر انیس ان کی علمی اور تحقیقی صلاحیت کا بین ثبوت ہے ۔

شمارے کی پرنٹنگ اور شمارے میں موجود منفرد تصاویر بھی بہت پر کشش اور جاذب ہیں۔ سر ورق پر موجود انیس کی تصویر تزئین کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے جو شمارے کی جاذبیت میں مزید اضافہ کرتی ہے اس کے علاوہ میر انیس کے مکان کا نقشہ، صدر دروازئہ میر انیس ، کوچہ ¿ میر انیس پر لگا ہوا ان کے نام کا پتھر وغیرہ قاری کی دلچسپی اور توجہ کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔بالاختصار میر انیس سے مخصوص یہ خصوصی نمبرماہنامہ ”نیا دور“ کی روایات کا امین اور ادارے کی ایک کا میاب کوشش ہے ۔ بلا شبہ یہ خصوصی نمبر ایک دستاویز کی حیثیت ثابت ہوگا ۔سچ تو یہ ہے کہ اس شمارے پر بات کرنے کے لئے ایک طویل مضمون درکار ہے۔