نئی دہلی: بابری مسجدملکیت مقدمہ معاملہ میں کل سپریم کورٹ میں ایک اہم سماعت ہونے جارہی جس کے دوران یہ طئے کیا جانا متوقع ہے کہ اس معاملے کی سماعت کب اورکس بینچ کے روبرو شروع ہوگی۔ گذشتہ روز رجسٹرار سپریم کورٹ آف انڈیانے ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین کو مطلع کیا تھا کہ بابری مسجد معاملے کی سماعت پانچ رکنی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائے چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں 26؍ فروری کو کریں گے۔

اس معاملے میں اہم فریق جمعیۃ علماء ہند کے دفتر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کل کی ہونے والی سماعت کے تعلق سے جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء جس میں سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹرراجیو دھون، راجیو رام چندرن، ورندا گروور ، ایڈوکیٹ آن ریکاڈر اعجاز مقبول و دیگر شامل ہیں تیار ہیں ۔

ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے بتایا کہ کل عدالت یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی معاملے کی سماعت کس بینچ کے سامنے اور کب شروع ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ دنوں بابری مسجد احاطہ کے قریب موجود اضافی زمین جسے حکومت ہند نے سپریم کورٹ کے حکنامہ او رخصوصی قانون بنا کر ایکوائر کیا ہواہے ، ہندو فریقین کو دینے کی عرضداشت داخل کی گئی تھی جو ابھی سماعت کے لیئے قبول نہیں ہوئی ہے اس پر بھی سماعت ہوسکتی ہے۔

ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے کہا کہ اضافی زمین ہندو فریقین کو واپس دینے والی عرضداشت پر ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ نے خود ابھی تک اسے سماعت کے لیئے قبول نہیں کیا ہے اور اگر سپریم کورٹ سماعت کے لئے قبول کرلیتی ہے تو جمعیۃ علماء ہند اس تعلق سے اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کریگی۔

واضح رہے کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند اول دن سے فریق ہے اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد دائر مقدمہ میں جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیر فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نچلی عدالت میں فریق بنے تھے پھر ان کے انتقال کے بعد حافظ محمد صدیق (جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء اتر پردیش) فریق بنے لیکن دوران سماعت ان کی رحلت کے بعد صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش مولانا اشہد رشیدی فریق بنے جو عدالت عظمی میں زیر سماعت اپیل میں فریق ہیں ۔