گلوریس فائونڈیش ٹرسٹ کے زیر اہمتام’آرزولکھنوی حیات وخدمات‘ پرسمینارمنعقد

لکھنؤ18فروری،آرزو لکھنوی صرف ایک بلند پایہ شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک اچھے نثر نگا ربھی تھے۔بہت افسوس سے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ اہل ادب نے اوراردووالوں نے آرزو لکھنوی کی طرف سے قطعاً بے اعتنائی برتی اگرچہ انہوں نے اردو زبان وادب کو اپنی اعلیٰ درجہ کی تخلیقات سے اس طرح مالا مال کیا ہے کہ بعض اوقات اپنے معاصرین سے آگے نکل گئے ہیں۔اور آرزولکھنوی کی اردو ادب میں خدمات ناقابل فراموش ہیں۔مذکورہ خیالات کا اظہارڈاکٹرمتین خان صدر انڈین یونین مسلم لیگ اترپردیش نے گلوریس فائونڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام اور اترپردیش اردواکادمی کے اشتراک سے منعقد سمینار’آرزو لکھنوی کی حیات وخدمات‘‘کی صدارت ہوئے کیا۔پروگرام دارالشفا کامن ہال اے بلاک میں منعقدہوا

مہمان خصوصی سینئر صحافی احمد ابراہیم علوی نے کہاآرزو لکھنوی کی نظر زبان وبیان ،قواعد وعروض پر بہت گہری تھی۔واقعہ یہ ہے کہ میر ضامن علی جلال لکھنوی کا ورثہ انہیں ملا تھا اور جلال سرمایۂ زبان اردو جیسی لغت کے مصنف تھے۔آرزو لکھنوی نے زبان کے اصول کو مدون کرنے کی بڑی کامیاب کوششیں کی ہیں ۔نظام اردو اسی کی شاندار مثال ہے، زبان وبیان کے معاملے میں استنادی حیثیت رکھتے تھے اور فن عروض پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

مہمان اعزازی ضیاء اللہ صدیقی ندویؔاورصبیحہ سلطانہ نے کہا کہ آرزولکھنوی فطرتاً شاعری ساتھ لائے تھے، وہ لکھنؤ کی ادبی فضا میں پلے بڑھے اور پروان چڑھے۔یہ فضا ہر لحاظ سے سخن وری وسخن فہمی کیلئے ساز گار تھی سب سے بڑھ کر گھر کا ماحول سرا سر شاعرانہ تھا۔آرزو بھی بارہ سال کی عمر شعر کہنے لگے ، مگر دنیائے شاعری میں ایسی مثال نہیں ملتی ہے کہ کسی نے اصلاح پہلے دی ہو اور اس کے بعد شعر موزوں یہ شرف صرف آرزوصاحب ہی کو حاصل ہے۔

سمینار میںڈاکٹر سید محمدصبیح ندوی،محمدراشد خان ندوی،عبدالکریم ندوی ،غفران نسیم،ضیاء اللہ صدیقی ،وحید اللہ انصاری چترویدی اور ڈاکٹر سعدیہ نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرزولکھنوی جب پیدا ہوئے تو گھر میں فارغ البالی کا دور دورہ تھا چنانچہ ابتدائی پرورش تو بڑے نازونعم سے ہوئی مگر چند ہی سال میں انقلاب زمانہ کے ہاتھوں یہ ورق الٹا اورحالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ خوشحالی فلاکت میں اور دولت عسرت میں تبدیل ہوگئی۔پرانے وضعدار لوگ تھے اس لئے شرافتِ خاندانی اور سابقہ آن بان کو نباہنا بھی ضروری تھا مگر اسباب ظاہرہ مفقود ہوچکے تھے، اس لئے جو بھی مصائب نہ جھیلنا پڑے ہوں وہ کم ہیں ۔بہر حال ہر دکھ اور مصیبت جھیلتے رہے،مگر پاس عزت نے اس کی کبھی اجازت نہ دی کہ زبان پر حرف شکایت آجائے۔خاندانی عزت وشرافت اس کی متقاضیٰ تھی کہ دل پر چاہے جو بھی بیتے زبان پر اُف نہ آنے پائے اور مصائب کاوہ ہجوم تھا کہ دم لبوں پر آرہاتھا۔شاید ننھے سے آرزو نے اسی پُرآشوب دور میں جو سماں دیکھا تھا اسے جوان ہونے پر یوں اداکیا کہ

دل جلنے میں ہے دم بخودی آفت جاں اور

ہوتی ہے ہوا بند تو گھٹتا ہے دھواں اور

سمینار کا آغازقاری عبدالکریم ندوی کی تلاوت کلام پاک سے کیا گیااس کے بعد نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا گیا۔سمینارمیںدلکش اور خوبصورت نظامت کے فرائض غفران نسیم نے انجام دئے۔سمینار میں افتتاحی کلمات پروگرام کی کنوینراورٹرسٹ کی چیر مین نزہت شہاب چشتی نے اداکئے اور مہمانوں کا استقبال گلدستہ دیکرمحمدکاشف،نزہت شہاب چشتی اورشکحکمہ نے کیا۔ پروگرام میں مقالہ نگاران کو سند وشال اورمومنٹودیکر اعزاز سے بھی نوازا گیا۔