عادل فراز

ہندوستان میںاب اقتدار پر کسی کا بھی قبضہ ہو مگر ہمیں یہ امید چھوڑ دینی چاہئے کہ کوئی حکومتی ادارہ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے بارے میں غور و فکر کرے گا ۔اگر مسلمان یہ سوچتاہے کہ وہ بی جےپی کو شکست دیکر کانگریس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھادے گا تو اس سے بھی ان کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے کیونکہ تمام سرکاری اداروں میں آرایس ایس کے تربیت یافتہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اشارے پر نوکر شاہی طبقہ اپنی دم ہلاتاہے ۔اسی نوکر شاہی طبقہ نے بی جے پی کو اکثریت کے ساتھ ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہونے میں مدد کی تھی اور آج جب یہی طبقہ بی جے پی کی سیاسی پالیسیوں سے ناخوش ہے تو بی جے پی کو اقتدا ر سے باہر ہونے کا ڈر ستارہاہے ۔اگر بی جے پی اقتدار سے باہر ہوجاتی ہے اور کانگریس زمام حکومت سنبھالتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ مسلمانوں کی اقتصادی،معاشی،سماجی اور تعلیمی صورتحال بدل جائے گی ؟۔کچھ کانگریس پرست مسلمان یہ امید دلاتے ہیں تو مسلمانوں کے ایک طبقہ کو یقین بھی ہوجاتاہے مگر ہمیں انکی یقین دہانی مونگیری لال کے سپنوں سے زیادہ اہم معلوم نہیں ہوتی ۔اس لئے کہ آج اکثر اعلیٰ افسران خواہ وہ کسی بھی ادارے اور کسی بھی عہدہ پر کیوں نہ ہوں آرایس ایس کے نظریات کے حامی اور تربیت یافتہ ہیں ۔ہم ان سے کیسے امید کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کی صورتحال بدلنے کے لئے مضبوط لائحۂ عمل تیار کریں گے ۔
مسلمانوں کو اپنی حالت بدلنے کی فکر خود کرنی ہوگی ۔آج تک مسلمانوں کو آرایس ایس اور بی جے پی کا خوف دلاکر ووٹ حاصل کئے گئے ہیں ۔اس خوف کی دلدل سے باہر نکلنا ہوگا ۔موت تو یقینی ہے ۔مگر بزدلی اور رسوائی کی موت سے عزت کی ایک دن کی زندگی کہیں بہتر ہے ۔اس لئے اگر اپنی حالت بدلنے کی جد وجہد دمیں کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں تو ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہئے ۔آنے والی نسلیں جب ہماری بزدلانہ تاریخ کا مطالعہ کرینگی تو ہمیں کوسیں گی ۔شاید وہ اس مطالعہ کے قابل نہیں ہوں کیونکہ جہالت زدہ نسلیں کبھی کتاب دوست نہیں ہواکرتیں ۔لہذا متحد ہوکر نوجوان نسل کو تعلیم سے بہرہ مند کرنے کی ضرورت ہے مگر اس میدان میں ہم ہر قوم سے پسماندہ ہیں اور پسماندگی کے اسباب پر آج تک کوئی اہم سروے نہیں آسکاہے کیونکہ جو لیڈرشپ ہمارے سروں پر مسلط ہے اسے مسلمانوں کی تعلیم و تدریس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔اس لیڈر شپ کی کامیابی کا سارا دارومدار قوم کی جہالت پر ہے اس لئے ان سے توقع کرنا سمند ر کے پانی سے پیاس بجھانے کی بیکار کوشش ہے ۔
جمعیت علماء،مسلم پرسنل لاء بورڈ ،جماعت اسلامی ،اور نہ جانے کتنی مسلمانوں کی تنظیمیں ہیں جو خود کو مسلمانوں کا لیڈر اور مالک سمجھتی ہیں مگر ان تنظیموں نے کبھی مسلمانوں کی حالت بدلنے کے لئے کوئی مضبوط لائحۂ عمل پیش کیا؟فساد زدگان کی مدد کرنا،بے گھروں کو سرچھپانے کے لئے چھت دینا ،بھوکوں کو کھانا کھلانا،مندر اور مسجد کے نام پر قومی سیاست میں فعال رہنا اور ایک مخصوص طرز فکر کے فروغ کے لئے سرمایہ خرچ کرنا اچھی بات ہے مگر کیا اس سے قوم کی حالت میں کوئی تبدیلی آئی ؟مسلم پرسنل لاء بورڈ جب بھی کوئی اجلاس طلب کرتاہے تو اس کا ایجنڈا فقط بابری مسجد ،تین طلاق ،حلالہ اور اسی طرح کے مسائل پر مبنی کیوں ہوتاہے؟کیا انہیں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی حالت پر غورکرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟اگر نہیں تو پھر انہیں قومی سیاست سے استعفیٰ دیدینا چاہئے اور بابری مسجد اور شریعت کے تحفظ کے نام پر فریب کی سیاست سے توبہ کرنی چاہئے ۔کیونکہ جس قوم کے پاس تعلیم اور اقتصادیات کا بنیادی ڈھانچہ نہیں ہوگا وہ قوم شریعت کی اہمیت کو کیا سمجھے گی ۔پھر وہی ہوگا جو مسلمانوں کی اقتصادی حالت کا فائدہ اٹھاکر آرایس ایس نے کیاہے۔ہماری کچھ خواتین کو خرید کر میڈیا کے سامنے شریعت کے خلاف محاذ آرائی کے لئے پیش کردیا جائے گا ۔لہذا قومی و مذہبی جماعتوں کو صرف اور صرف قوم کی تعلیم اور انکی بہتر اقتصادیات کے لئے مضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔

وہ دانشور طبقہ جو عہدہ پر رہتے ہوئے کبھی قوم کا نہیں ہوا ،جس نے کبھی قوم کے لئے کوئی منصوبہ سازی نہیں کی اور ہمیشہ اپنے مفاد کے لئے قوم کے ہر مفاد کو بالائے طاق رکھا ،ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں قومی معاملات میں دخل دینے کا کیا حق ہے ؟اگر وہ چاہتے تو ایک مکمل نسل کی ذہنی و فکری آبیاری کرتے مگر وہ ہمیشہ مصلحت پسندی کے دام میں الجھے رہے ۔چونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اس لئے قومی معاملات میں مداخلت کی سیاست کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں ۔اگر وہ اب بھی قوم کے لئے مخلص ہیں تو انہیں منظم طورپر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر ایسی کوئی تحریک ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ۔ہم سرسید احمد خاں سے ہزار نظریاتی اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس شخص نے قوم کے مستقبل کے لئے ایک منظم منصوبہ کے تحت کام کیا جس کے ثمرات آج قوم تک پہونچ رہے ہیں مگر آج کے ہزاروں سرسید قوم کے لئے کس منظم منصوبہ کی تکمیل میں مصروف ہیں ،یہ تو وہی بہتر بتاسکتے ہیں یا انہیں ’عظیم دانشور‘ کے خطاب سے نوازنے والے لوگ بتاسکتے ہیں۔

کیا ہماری قوم میں سرمایہ داروں کی کمی ہے ؟سیکڑوں ایسے سرمایہ دار موجود ہیں جو قوم کے لئے بے تحاشہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں مگر انہیں مخلص مفکرین کی ضرورت ہے ۔اگر آرایس ایس کی ملامت کرنے کے بجائے ان کی منظم کوششوں سے کچھ سیکھا ہوتا تو آج حالات دوسرے ہوتے ۔انہوں نے کمپٹیشن امتحانات کی تیاری کے لئے اہم مراکز قائم کئے ۔کمزور مگر ذہین نسل کی اقتصادی امداد کی ۔بچوں کے لئے اسکول اور تربیتی مراکز کھولے ۔ایسے افراد کو اپنے ساتھ منسلک کیا جو موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی منصوبہ سازی کریں ۔لٹریچر کے افراد کی سرپرستی کی اور اتنا لٹریچر منظر عام پر لیکر آئے جو اس ملک کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے ۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان مراکز کی آڑ میں انہوں نے کیا کیا ۔انکے تربیت یافتہ لیکچررز نے نوجوان نسل کی کیسے ذہنی و فکری آبیاری کی اور آج ہر بڑے اور اہم عہدہ پر انکے سدھائے ہوئے افسران بیٹھے ہوئے انکے منثور کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں ۔آخریہ کام ہم نے کیوں نہیں کیا ؟ہمارے لیڈران جن کی سیاست کا سارا دارومدار قومی معاملات پر ہے وہ ایسے مراکز قائم کرنے میں ناکام کیوں رہے ؟۔دانشور طبقہ نے کمپٹیشن انسٹیٹیوٹ کی بنیاد کیوں نہیں ڈالی ؟حقیقت حال یہ ہے کہ کسی نے کچھ نہیں کیا اور جنہوں نے کچھ کرنے کی کوشش کی انکے خلاف اس قدر محاذ آرائی کی گئی کہ وہ دُبک کر بیٹھ گئے ۔جو سرمایہ دار قوم کے لئے خرچ کرنا چاہتے تھے تو انکے سرمایہ کو نگل لیا گیا اور وہ بددل ہوکر اپنے کام پر لوٹ گئے ۔سوچئیے ہمارا مستقبل کس خطرناک موڑ پر ہے اور ہمارے قائدین موجودہ صورتحال سے بے خبر قوم کے نام پر مزے لوٹ رہے ہیں۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان حصول تعلیم کے بعد بھی اچھے روزگار سے محروم رہے گا در اصل نوجوانوں اور انکے سرپرستوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔ہم نے حکومتوں ،حکومتی اداروں اور ایجنسیوں کو متبادل ہی کب دیا ہے ؟کتنے نوجوان ہیں جو آئی ایس اور پی سی ایس کے امتحانات میں بیٹھتے ہیں ؟کامیابی و ناکامی کے اعدادو شمار سے پرے یہ اعدادو شمار ڈرانے والے ہونگے کہ کتنے مسلمان کمپٹیشن امتحانات کی تیاری کرتےہیں اور پھر امتحانات میں شریک ہوتے ہیں۔عدالتوں میں ججوں کی کمی ہے اگر مسلمان بہترین متباد ل کے طورپر سامنے آتا تو کیا انکی اہلیت اور صلاحیت کورد کرنے کا کوئی جواز تھا ۔ممکن ہے کچھ پریشانیاں پیش آئیں ۔یقیناََ ابتدامیں مشکلات کا سامنا ہوگا مگر کوشش تو کی جائے ۔بغیر کوشش کے ہار مان کر بیٹھ جانا کونسی بہادر ی ہے ۔کوشش کیجیے ۔قرآن کہہ رہاہے ’انسان کو اسکی کوشش کے برابر عطا کیا جائے گا‘۔لیکن کامیابی کے لئے پہلی شرط محنت کے ساتھ کوشش ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے مگر اتنی دیر بھی نہیں ہوئی کہ ہم اپنی حالت کو بدلنے کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں ۔قوم کے نام پر سیاست کرنے والے بھی بیدار ہوں اور سرمایہ دار حضرات بھی ملت کے لئے سرجوڑ کر بیٹھیں ۔دانشور طبقہ بھی آگے آئے اور اپنے تجربات اور علم و فن سےقوم کو مستیفض کرنے کی کوشش کرے ۔ان سب کے علاوہ ضروری ہے کہ کمپٹیشن انسٹیٹیوٹ کھولے جائیں اور حکومتوں کوہر شعبے میں ایک بہتر امیدوار اور متبادل دیکر مجبور کردیاجائے کہ وہ مسلم نوجوانوں کا انتخاب کریں۔اسکے لئے علاوہ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ۔