برلن: جمشید پور سے آئے ہوئے بزرگ شاعر سعید فردوسی کا اردو انجمن برلن کے صدر عارف نقوی کی رہائش گاہ پر زوردار استقبال کیا گیا۔اس موقع پرشعرو ادب سے وابستہ برلن کی معتبر ہستیاںموجود تھیں جن میں اردو انجمن کے سینئیر اراکین کے ساتھ بعض دیگر ادبی تنظیموں کے نمائندے قابلِ ذکر ہیں۔ سعید فردوسی نے ہندوستان اور خاص طور سے جمشید پور کی ادبی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور اس بات کو سراہا کہ جرمنی میں اردو کے فروغ کے لئے سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔انھوں نے اردو انجمن کے اراکین اور دیگر مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اردو انجمن برلن اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے قابل قدر رول ادا کر رہی ہے۔برلن کا سفر اور اردو انجمن کی پذیرائی ان کے لئے ایک انمول سرمایہ ہے، جو انشاء للہ ان کے شعری سفر میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ سعید فردوسی نے بتایا کہ یہاں آنے سے قبل وہ میرٹھ کی سی سی ایچ یونیورسٹی کے شعبہ ء اردو کے صدر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری سے برلن میں اردو کے فروغ کے لئے ہونے والی سرگرمیوں اور اردو انجمن کے بارے میں بہت کچھ واقفیت حاصل کر چکے تھے۔

اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے سعید فردوسی صاحب، نیز ان کی اہلیہ، دختر اور داماداور دیگر مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی انجمن اور نشست میں شریک لوگوں کا تعارف کرایا اور بتایا کہ انجمن تجارتی، سیاسی، مذہبی اور قومیت کی حدود سے بلند ہو کر اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے۔بڑے پروگراموں کے علاوہ ایسی نشستیں ایک دوسرے کو زیادہ سمجھنے اور زیادہ شعری افہام و تفہیم کا موقع دیتی ہیں۔

چائے کے وقفے کے بعد شعر و شاعری کا دور چلا اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے اپنی دو غزلیں پیش کیں جن میں

یہ اشعار شامل ہیں:

طلوعِ  صبح میں تشنہء خواب لینے والو

ٍ اب اٹھ بھی جائو کہ تم کو جگا رہا ہے کوئی

ٍٍ اور

محبتیں اختلاف بن رہی ہیں یہاں
ہمارے بیچ نفرتیں اگا رہا ہے کوئی

اور عشرت معین سیما نے ، جو اردو انجمن کی معزز رکن ہیںپڑھا:

یہ بدن خاکِ کیمیا ہی تو ہے
زندگی موت کی تباہی تو ہے
اور جانِ خستہ  اداس کیا ہونا
توبدن سے فقط جدا ہی تو ہے

اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے  اپنی نظم ’وطن‘ پیش کی۔ جس کا آغاز انہوں نے اس طرح کیا:

وطن میرا وطن تیرا وطن ہے غمگساروں کا
وطن کی آبرو رکھنا وطن کی شان رکھ لینا
وطن کے واسطے دارو رسن کو چوم کر کہنا
جمالِ رخ پہ تیرے خود کو میں قربا کرتا ہوں
اور  پھر نظم کا اختتام اس پیغام پر کیا:
وطن کے نام پر اوروں کی دنیا مت مٹادینا
ستمگر بن کے تم حرفِ وفا کو مت بھلا دینا
وطن کے نام پر داغِ عداوت مت لگا دینا

ایک دوسری نظم میں عارف نے ایٹمی اسلحہ سازی کی مذمت کی۔

آخر میں مہمانِ خصوصی سعید فردوسی نے اپنی کئی غزلیں پیش کیں اور داد حاصل کی۔ جن کے چند اشعار اس طرح ہیں:

جس دن مرا اللہ مرے ساتھ ہوا پھر
اے موجہء طوفاں یہی پتوار بہت ہے

ہر دھوکا اسے دیتا ہے اک لطف کا احساس
فردوسی مرا یار بھی فنکار بہت ہے

ہجر لیکن مزہ بھی دیتا ہے
درد ہوگا مگر ذرا ذرا ہوگا

اس لئے بیٹی بیٹھی ہے اب تک
وہ کوئی بیٹا ڈھونڈھتا ہو گا

سچ میں دیکھا کہ سبھی چاٹ رہے ہیں تلوے
پھاڑ کر پھینک دیا ہم نے قصیدہ اپنا

سبھی کو دوست بنانا اسے گوارہ نہیں
اسی کو دوست بناتا ہے جو ہمارا نہیں

 ہمارے شہر کو لیکن ہے  امتیاز  حاصل
تمھارے شہر میں جو کچھ ہوا ہوا ہوگا

وہ کیوں اجاڑیں گے اپنا بسا بسایا گھر
وہ دیکھنا کوئی پردے میں تیسرا ہوگا

ابھی سے آنکھ کو ملنے لگے ہیںنظّارے
ابھی تو ٹھیک سے زلفوں کو بھی سنوارا نہیں

نشت میں سعید فردوسی کے ساتھ، محترمہ نزہت بتول، محترمہ شملہ فردوسی، ڈاکٹر احمد عمر، نیزآل انڈیا ریڈیو کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر عبید نیازی جو جرمنی کی براڈکاسٹنگ سروس ڈائچے ویلے کے ہندی سیکشن کے انچارج رہ چکے ہیں، اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر، بزم ادب کے سکریٹری سرور ظہیر، اردو انجمن کی معززرکن ڈاکٹر عشرت معین سیما،صحافی مطیع اللہ، پاکبان انٹرنیشل کے بانی و چیف ایڈیٹر ظہور احمد، معین محمد، ایمن محمد ، ٹیگور آئن سٹائن فائونڈیشن کے بانی و اردو انجمن کے رکن ڈاکٹر سنیل سین گپتا اور عارف نقوی وغیر شریک تھے۔

رپورٹ : عارف نقوی۔برلن