عادل فراز

علامہ اقبالؔ نے کہا تھا

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے — مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

حقیقت حال بھی یہی ہے کہ موجودہ وقت میں مسلمان اس راکھ کے ڈھیر کی مانند ہے جس میں ذرہ برابر حرارت کا امکان نہیں ہے ۔یہ صورتحال عالمی سطح پر نمایاں ہے ۔مسلمان فاتح قوم رہی ہے مگر آج غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے ۔اس غلامانہ ذہنیت نے عالم اسلام کو مٹھی بھر قوم کے سامنے سرنگوں کردیاہے ۔سعودی عرب اور اسکے اتحادی ملکو ں کی مجرمانہ خاموشی اور امریکی آمریت کے سامنے بزدلانہ اقدامات یہ واضح کرتے ہیں کہ آج کے مسلمان میں دنیا کو فتح کا کرنے کا جذبہ ناپید ہے ۔وہ بس عیش و عشرت کی زندگی چاہتاہےاوراس زندگی کے حصول کے لئے وہ پوری قوم کو نیلام کرسکتاہے ۔

حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا جو ویڈیو منظر عام پر آیا ہے وہ مسلمانوں کی پسماندگی،غلامانہ فکر اور بزدلانہ ذہنیت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔امریکی صدر ریاست میسی سپی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عالم اسلام کو آئینہ دکھارہے تھے ۔ٹرمپ کا یہ بیان فقط سعودی عرب کا تمسخر نہیں تھا بلکہ اسکے تمام اتحادی ممالک اس بیان کی زد میں ہیں ۔حیرت یہ ہے کہ ابھی تک سعودی فرمانروا کی طرف سے ٹرمپ کی دریدہ دہنی کی مذمت نہیں کی گئی یہ حیرت ناک ہے ۔اگر یہی بیان کسی مسلمان ملک نے دیدید یا ہوتا تو اب تک سعودی عرب اس ملک کے خلاف اعلان جنگ کرچکا ہوتا ۔جس طرح سعودی عرب یمن اور شام میں دہشت گردانہ منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے اگر اس کے برعکس کچھ دلیرانہ اقدامات امریکا اور اسرائیل کے خلاف بھی کئے ہوتے تو آج سعودی عرب زوال کا شکارنہ ہوکر عالم اسلام کے سر کا تاج ہوتامگر افسوس سعودی عرب کی تلوار ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف نیام سے باہر نکلی ہے ۔

بہر کیف !ہمارا مطمح نظر امریکی صدر کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے سعودی عرب کی حیثیت کوواضح کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’امریکی فوج کی حمایت کے بغیر سعودی حکومت دو ہفتہ بھی نہیں چل سکتی ۔امریکہ سعودی حکوت کو تحفظ فراہم کرتاہے‘‘ ۔ٹرمپ نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ’’ انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات میں یہ واضح کردیا تھا کہ سعودی حکومت بغیر امریکی حمایت کے دوہفتہ سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی لہذا سعودی حکومت اس حمایت کا معاوضہ ادا کرے ۔معاوضہ کے بغیر حمایتی خدمات زیادہ عرصہ تک حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔

سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ سعودی عرب سے اس قدر ناراض کیوں ہے ؟

اس سوال کا جواب سعودی عرب کی داخلی و خارجی پالیسیوں اور صورتحال کا عبوری جائزہ لیکر حاصل کیا جاسکتاہے ۔اول تو یہ کہ سعودی عرب اس وقت داخلی معاملات میں بغاوتوں کا شکار ہے ۔شاہی خاندان میں پھوٹ اور بغاوت کی خبریں عام بات ہے ۔کچھ عرصے قبل شہزادوں کی مسلسل گرفتاری نے قدامت پسند سلطنت کی چولیں ہلادی تھیں ۔مگر عالمی طاقتوں کی حمایت نے سعودی حکومت کی علی الاعلان پشت پناہی کی جس کے نتیجہ میں داخلی بغاوتوں پر حکومت قابو پانے میں کامیاب نظر آئی ۔مگرامریکا کے منافقانہ کردار کی بنیاد پر آج بھی شاہی خاندان یہ جانتاہے کہ محمد بن سلمان کو اقتدار پر مسلط کرنے میں کس قدر امریکی تعاون شامل حال ہے اور محمد بن سلمان یہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ آج بھی انکے مخالفین کی پشت پناہی کونسی طاقت کررہی ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہاہے مگر اب تک اپنی ہر کوشش میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑاہے ۔داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی بھی اسے شام پر مسلط نہیں کرسکی ۔آج عالم یہ ہے کہ شام کا بیشتر علاقہ شامی فوجوں کے قبضہ میں ہے اور جن علاقوں میں سعودی حمایت یافتہ دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں وہ شامی فوج کے محاصرہ میں ہیں۔اس جنگ میں امریکہ نے سعودی عرب کی بھر پورحمایت کی مگر اسکی حمایت کے باوجود سعودی اتحاد بری طرح ناکام رہا ۔شام کے بعدیمن کی تباہی و بربادی کے پیچھے بھی سعودی حکومت ہے لیکن آج بھی ایک چھوٹی سی حوثی تنظیم ’’انصاراللہ ‘‘ نے اسے یمن کے اقتدار پر قابض نہیں ہونے دیا ۔آج بھی جنگ تسلسل کے ساتھ جاری ہے مگر سعودی عرب امریکی پشت پناہی کے باوجود انصار اللہ کوشکست دینے میں ناکام ہے ۔رہا حزب اللہ کا معاملہ تو یہ تنظیم ہر محاذ پر امریکہ اور اسرائیل کے لئے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی ہے۔آج تک لبنان ،شام اور یمن میں حزب اللہ جیسی مقاومتی تنظیم کے فوجیوں کےذریعہ سعودی اتحاد کی فوجوں کو رسوائی آمیز پسپائی نصیب ہوئی ہے ۔اگر سعودی اتحاد شام اور یمن میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہے تو اسکی اصل وجہ حزب اللہ کےجوانوں کا استقلال اور جوانمردی ہے ۔اسکے جوانوں کے ایثار و استقامت کے سامنے سعودی اتحادی فوجیں بے دست و پا نظرآئی ہیں۔اب رہا ایران کا مسئلہ تو عالمی سطح پر استعماری قوتیں پریشان ہیں کہ کس طرح ایرانی حکومت کے شجاعانہ مزاج اور عوام کے دلیرانہ ثبات کو شکست دی جائے ۔امریکی اقتصادی پابندیوں کے نتیجہ میں ایران وقتی طورپر داخلی بحران کا شکار ضرور ہے مگر اسکی عوام آج بھی دشمن کے مقابلے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ۔اگر ایران میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں تو دشمن کو یہ محسوس ہوتاہے کہ اب ایران کی حکومت کو شکست دی جاسکتی ہے مگر اگلے ہی لمحے ایرانی عوام استعماری جبروتیت کے خلاف میدان عمل میں نظر آتی ہے ۔یقینی طورپر عوام اپنی حکومت سے ناراض ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ اختلافات کے باجود دشمن کے مقابلے میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہوجائے تو واضح ہوتاہے کہ عوام داخلی مسائل سے پریشان ہوکر دشمن کی سازشوں اور منصوبوں سے لاعلم نہیں ہے بلکہ وہ ہرلمحہ مقابلے اور ایثار کے لئے آمادہ ہے۔ایرانی حکومت اور عوام بخوبی جانتی ہے کہ امریکہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ انکی معیشت کو نقصان پہونچاکر فقط حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتاہے بلکہ وہ ان سے ہمیشہ کی غلامی کا طلبگار ہے ۔جس طرح آج سعودی عرب اور اسکے اتحادی ممالک غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں اسی غلامانہ زندگی کا تقاضا ایرانی عوام سے ہے ۔اگرایرانی عوام امریکی مقاصد کو نہ سمجھتی تو اب تک ایران میں دوسرا انقلاب برپا ہوچکا ہوتا جو امریکی سازشوں کا مرہون منت ہوتا۔اس شکست مسلسل کی ٹیسیں سعودی عرب سے زیادہ امریکہ محسوس کررہاہے اس لئے اس نے اپنے قدیمی اتحادی کے خلاف ایسا توہین آمیز بیان دیاہے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکےکہ وقت پڑنے پر وہ سعودی حکومت کو بھی اسی طرح ختم کرسکتاہے جس طرح عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا ۔لیکن سعودی عرب نےامریکی دھمکیوں پر کسی بھی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے کیونکہ غلام آقاکے سامنے زباں درازی نہیں کرتے ۔

امریکی صدر کا یہ ویڈیو عین اس وقت منظر عام پر آیاہے جب تیل کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کوبھی داخلی سطح پر شدید بحران کا سامنا ہے۔ اعداو شمار یہ بتاتے ہیں کہ امریکی اقتصادی ڈھانچہ بھی بکھرائو کا شکار ہے لہذا موجودہ حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندیوں اور خارجہ پالیسیوں کو حزب اختلاف نے ہدف تنقید بنایا ہواہے۔انکے مطابق ٹرمپ کی ناعاقبت اندیشی اور ناقص خارجہ پالیسیوں کی بنیاد پر امریکہ شدید بحران کی طرف بڑھ رہاہے۔ امریکی صدر کے اس بیان سے بھی یہ محسوس ہوتاہے کہ جیسے داخلی بحران سے پریشان ہوکر امریکی صدر سعودی عرب کو انتباہ دے رہے ہیں تاکہ اس معاوضہ(حفاظتی ٹیکس) کی مدد سے داخلی بحران کو کچھ کم کیا جاسکے ۔ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ سعودی عرب امریکہ کو کتنا ٹیکس ادا کرتاہے اور عالمی منڈی میں تیل کی موجودہ قیمتوں سے الگ امریکہ کو کس قیمت پر تیل فروخت کیا جارہاہے ۔(جبکہ دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائز تک امریکہ کی رسائی ہے اسکے باوجود ہم حسن ظن رکھتےہوئے یہ مان لیتے ہیں کہ امریکہ سعودی عرب سےتیل کی خریداری میں شامل ہے)۔مگر امریکی صدر کی تلملاہٹ یہ بتلارہی ہے کہ امریکہ اندرونی طورپر شدید بحران کا شکار ہے اور عالمی بازار میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو لیکر اسکی راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے ۔جبکہ تیل کی رزو افزوں قیمتوں کے لئے خود امریکہ بھی ذمہ دار ہے کیونکہ جس طرح آمرانہ طریقے سے ایران پر اچانک اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس کا براہ راست اثر عالمی منڈی پر مرتب ہوا ہے جسکے نتیجہ میں تیل اور دیگر تجارتی اشیاء کی قیمتیں حیرت انگیز طورپر بڑھی ہیں۔اگر امریکہ ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے ایران جوہری معاہدہ سے باہر نہیں نکلتا تو آج تیل کی قیمتوں میں عدم اضافہ کے علاوہ عالمی معیشت اس قدر بحران کا شکار نہیں ہوتی ۔حیرت یہ ہے کہ پوری دنیا امریکی صدر کے آمرانہ فیصلے کی سزا بھگت رہی ہے مگر بین الاقوامی برادری ابھی بھی پوری طرح امریکی آمریت کے خلاف کھل کرسامنے نہیں آئی ہے ۔اس منافقانہ رویہ نے عالمی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دیاہے ۔اس وقت چین ،روس ترکی اور دیگر چند ممالک امریکی پالیسیوں کے خلاف جرآت کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر عالمی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانےکے لئے تمام اہم ممالک کو امریکی پالیسیوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا ۔ورنہ امریکہ اسی طرح آمریت اور ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتا رہے گا جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔