عبدالکریم امجدی ؍کالیکٹ کیرالا

لیلۃ القدر رمضان المبار ک کی آخری دس طاق راتوں میں سے ایک عظیم الشان با بر کت رات ہے جسے عمومی طور پر شب قدر یعنی برکت والی رات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔شب قدر کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن مقدس میں پوری سورت نازل ہوئی ارشادباری تعالی ہوا ۔ترجمہ کنزالایمان۔ بیشک ہم نے اسے یعنی (قرآن )کو شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر ،شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں فرشتے اور جبرئیل اتر تے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہرکام کے لئے ۔وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔(سورۃ القدر)

لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ :۱) اس مقدس اور متبرک رات کا نام لیلۃ القدر رکھے جانے کی چند حکمتیں ہیں ۔
قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ اس رات کی عظمت وبزرگی اور اعلی مرتبے کی وجہ سے اس کا نام لیلۃ القدر رکھا گیاہے۔اس رات میں عبادت کا مرتبہ بھی بہت اعلی ہے جو کوئی اس رات میں عبادت کرتا ہے وہ بارگاہ الہی میں قدرومنزلت والا ہوجاتا ہے اور اس ارت کی عبادت کا مرتبہ یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ایک اور حکمت لیلۃ القدر کی یہ ہے کہ اس رات میں عظمت وبلند مرتبہ والی کتاب نازل ہوئی ،کتاب اور وحی لیکر آنے والے فرشتے جبرئیل علیہ السلام بلند مرتبہ والے ہیں اور یہ عظیم الشان کتاب قرآن حکیم جس محبوب رسول ﷺ پرنازل ہوئی وہ بھی بری عظمت اور بلند مرتبے والے ہیں ۔سورۃ القدر میں اس لفظ ،قدر کے تین مرتبہ آنے میں شاید یہی حکمت ہے۔

۲) قدر مے معنی تقدر بھی کے ہیں اور چونکہ اس رات میں بندوں کی تقدیر کا وہ حصہ جو اس رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہوتا ہے وہ متعقلہ فرشتوں کو سونپ دیا جاتا ہے اس لئے بھی اس رات کو شب قدر کہتے ہیں ۔

۳) ایک توجیح کے مطابق لیلۃ القدر کو لیلۃ القدر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس میں بندوں کی قضاء وقدر مقدر ہوتی ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے فیہا یفرق کل امر حکیم اس میں ہر امر حکیم کا فرق لکھا جاتا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اس سال کا رزق ،بارش،حیات،اور موت(یعنی زندہ رکھنا اور مارنا)وغیرہ اسی رات میں آنے والے سال کے لئے مقدر فرماکر ملائکہ مدبرات الامور کے سپرد فرمادیتا ہے ۔رزق،نباتات اور بارش کا دفتر میکائیل علیہ السلام کو اور جنگیں ،ہوائیں،زلزلے ،صواعق،اور خسف (دھنسنا)کا دفتر جبرئیل علیہ السلام کو اعمال کا دفتر اسرافیل علیہ السلام کو اور مصائب کا عزائیل علیہ السلام کو سپرد کیا جاتا ہے ۔(تفسیر روح البیان جلد۱۵صفحہ ۴۸۲)

مذکورہ بالا سورہ(القدر) سے شب قدر کی مندرجہ ذیل اہمیت بزرگی معلوم ہوتی ہے۔

۱)جوہزار مہینوں سے افضل ہے۔

۲)اسی رات میں قرآحکیم لوغ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا۔

۳) اسی رات میں فرشتے اور جبرئیل علیہ السلام زمین پر اتر تے ہیں ۔

۴)اسی رات میں صبح طلوع ہونے تک خیر وبرکت نازل ہوتی ہے اور یہ سلامتی ہی سلامتی ہے۔

شب قدر کی اہمیت وافضلیت:

شب قدر کی اتنی زیادہ افضیلت والی رات ہے کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ ماہ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس رات محروم رہا وہ ساری خیر سے محروم رہا۔(سنن نسائی،مشکوۃ ج۱ص۶۲۴)

۱)مذکورہ حدیث پاک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس ارت سے محروم رہاوہ ساری بھلائی سے محروم رہااور جو اس کی بھلائی سے محروم رہاوہ بالکل ہی محروم اور کم نصیب ہے ۔(سنن ابن ماجہ ،مشکوۃ ج،۱ص۴۲۷)

۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جو شب قدر میںایمان و اخلاص کیساتھ عبادت کرتا ہے اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔بعض احادیث مبارکہ سے مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص ماہ شعبان اور رمضان میں مگرب اور عشاء کی نماز جماعت کیساتھ ادا کرتارہا تو اس کو شب قدر کی کچھ برکتیں ضرور ملتی ہیں ۔

۳)حضرت ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ آقاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے پورے رمضان میںعشاء کی نماز جماعت کیساتھ پڑھی گویا کہ اس نے شب قدر کو پالیا۔

۴)ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جب شب قدر آتی ہے تو الل تبارک وتعالی کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک سبزہ جھنڈ الئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں اور اس سبز جھنڈے کو کعبہ معظمہ پر لہرا دیتے ہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے سو بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اسی رات کھلتے ہیں وہ بازو مشرق ومغرب میں پھیل جاتے ہیں ،پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو حکم دیتے ہیں جو کوئی مسلمان آج رات قیام میں نماز یا ذکر اللہ میں مشغول ہے اس سے سلام ومصافحہ کرو نیز ان کی دعائوں پر آمین بھی کہو،چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے صبح ہونے پر جبرئیل امین علیہ السلام فرشتوں کو پھر واپس چلنے کا حکم دیتے ہیں ،فرشتے عرض کرتے ہیں اے جبرئیل امین علیہ السلام !اللہ نے اپنے پیارے حبیب کی امت کی حاجات کے بارے میں کیا کیا؟حضرت جبرئیل فرماتے ہیں اللہ نے ان لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوںکے علاوہ تمام لوگوں کو معاف فرمادیا،صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺوہ چار قسم کے لوگ کون ہیں ارشاد فرمایا۔
شراب کا عادی،والدین کے نافرمان ،قطع رحم کرنے والے ،آپس میں حسد وکینہ رکھنے والے ۔

۵) جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھاکہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا توآپ اس قدرعبادت میں مشقت فرماتے جو دیگر ایام میں نہ کرتے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف رمضانکے آخری عشرہ میں شب بیداری کرتے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔(بخاری مسلم،مشکوۃ،ج۱ ص۴۵۱)
مکی تاجدار کا آخری عشرہ میں مشقت اٹھاتے تھے جن کے صدقے ہم گناہگاروں کی بخشش ہونی ہے تو ہم اور آپ آخری عشرہ میں اللہ کی رضا کے واسطے سنت نبوی پر عمل کیوں نہ کریں۔