عادل فراز

وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی ہندوستان میں نفرت کی سیاست کا بازار گرم ہوگیا تھا ۔کبھی اقلیتوں کو کچلا گیا تو کبھی دلتوں کو سرعام برہنہ کرکے زدوکوب کیا گیا ۔لباس دیکھ کر مسافروں کا قتل کیا جارہاہے تو کبھی دہشت کو فروغ دینے کے لئے علاقہ میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کردیا جاتاہے۔جانوروں کے مذہبی تقدس کے نام پر بے گناہ انسانوں کی بلی چڑھائی جارہی ہے تو کبھی اپنی ذات کو معیار بناکر کمزوروں کو دبایا جارہاہے ۔اس وقت ملک میں جو نفرت کی ہوا چل رہی ہے اسکی زد میں فقط پسماندہ طبقہ یا مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ پورا ملک ہے ۔ہماری کمزوری یہ ہے کہ بھگوا دہشت گردی اور زعفرانی ٹولے کی غنڈہ گردی کوہمیشہ فرقہ وارانہ رخ دیکر انکی سیاست کا خود ہی شکار ہوجاتے ہیںاور برسراقتدار جماعت اس کا بھر پور فائدہ حاصل کرتی ہے ۔ہم ہندوستانیوں کو یہ بارآور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ ملک میں جس زعفرانی سیاست کو فروغ دیاجارہاہے یہ فقط اقلیتوں یا مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ پورا ملک اور سیکولر ذہن اسکی زد میں ہے ۔لہذا کسی ایک فرقہ یا طبقہ کے نقصان کو نظر انداز کرکے ملک کو ہونے والے نقصان سے محفوظ رکھنے کی تدابیر پر غورکیا جائے ۔

۲۰۱۹ ؁ء کے انتخابات سر پر ہیں لہذا بھگوا تنظیمیں اور بی جے پی اپنی پرانی روش پر لوٹ آئی ہیں ۔ہندوئوں کے نزدیک بھگوان رام قابل پرستش ہیں اس لئے اترپردیش کی سیاست کا محور آج بھی رام مندر کی تعمیر ہی ہے ۔مگر جن دیگر جگہوں پر رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ کار گر ثابت نہیں ہوتا وہاں نت نئے مسائل کھڑے کردیے جاتے ہیں۔چونکہ ہندوستان میں سیاست کا مرکز اترپردیش ہی ہے اس لئے ہر اچھی بری سیاست کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تباہ حال شہریوں کی مدد کے بجائے بی جے پی کے لئے کرناٹک میں انتخابی تشیر کا بیڑا اٹھا ئے ہوئے تھے مگر جب اپوزیشن اور میڈیا نے کوسنا شروع کیا تو بادل نخواستہ واپس آکر غریب متاثرین کا حال چال لیا۔جبکہ وزیراعلیٰ کو کسی بھی کمزور اور مظلوم کی فریاد سننے کی بھی فرصت نہیں ہے ۔یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی وہی فارمولہ اختیار کیا ہوا ہے جس پر نریندر مودی عمل پیرا ہیں ’’ بولو مت چپ رہو‘‘۔ یہ فارمولہ کتنا بھی گھسا پٹا سہی مگر بی جے پی کے لئے کارآمد ہے ۔جو لوگ کل تک منموہن سنگھ کو انکی خاموشی پر طعنے دیتے تھے آج یوگی جی اور مودی جی کی خاموشی کے جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

بی جے پی ۲۰۱۹ ؁ کا انتخاب کس حکمت عملی کے تحت لڑنا چاہتی ہے اس کا اندازہ کرناٹک انتخاب سے ہوجاتاہے ۔حال ہی میں بی جے پی کی نیّا کے کھویّا امت شاہ نے کرناٹک کے گدگ ضلع کی ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہاجن کے پاس وندے ماترم کہنے کے لئے وقت نہیں ہے وہ دیش کا بھلا کیسے کرسکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا فقط ’’وندے ماترم ‘‘ کہنے سے دیش کا بھلا ہوسکتاہے ؟۔اگر ایسا ہے تو پھر امت شاہ بی جے پی کی نیا کو پار لگانے کے لئے شہرشہر کی خاک کیوں چھان رہے ہیں؟۔رام مندر کی تعمیر کے لئے نفرت کی سیاست کیوں کی جارہی ہے ؟جناح کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے اور بی جے پی’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کےفارمولے پر عمل پیرا کیوں ہے ؟ جبکہ یہ سارے کام ’’وندے ماترم ‘‘کا راگ الاپنے سے ہوسکتے ہیں۔امت شاہ جی ،دیش کا بھلا فقط ’’وندے ماترم ‘‘ کہنے سے ہورہاہوتا تواس دیش کا کلیان کب کا ہوگیا ہوتا ،اس دیش کا کلیان کرناہے تو نفرت کی سیاست چھوڑ کرملک کی سیکولر روح کو بچانا ہوگا جو آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ فقط وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے بلواکر کوئی بھی جماعت ملک کا بھلا نہیں کرسکتی ۔ملک کا بھلاکرنا ہے تو سب کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا ہوگا اور ذات پات اور مذہب کی حدود سے باہر نکل کر ملک کی ترقی کی راہیں تلاش کرنا ہونگی۔

اگربی جے پی ملک کو ترقی کی طرف لیجانا چاہتی ہے تو پھر ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ دینے والی جماعت اپنے ہی نعرہ کی مخالف کیوں ہے ۔اگر اس ملک کا وکاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جناح کی تصویر ہٹانے سے ہوسکتاہے تو باالکل ہٹادیجیے ۔مسلمانوں کو جناح سے کوئی عقیدت نہیں ہے اور نہ جناح ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مہاتما گاندھی سے عظیم ہوسکتے ہیں،لیکن اس ملک میں گوڈسے کا مندر تعمیر کراکے اور قاتلوں کی سیاسی پزیرائی کا گھنائونا عمل انجام دیکر کونسے وکاس کی کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔نئی نسل کی رگوں میں تعصب اور نفرت کازہر کیوں کاانڈیلا جارہاہے ۔مذہبی نعرے لگواکر اور مذہبی بکھیڑے شروع کرکے کس ملک کو ترقی نصیب ہوئی ہے؟۔

تعجب اس وقت ہوتاہے جب مسلمانوں کے اوقاف پر ناجائز قبضے کرکے انہیں اللہ کی عبادت کرنے پر بھی مجرم تصورکیا جاتاہے ۔نماز کے دوران کچھ شرپسند عناصر آکر ’’جے شری رام ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں ،سرکار مسلمانوں کی مسجدوں کو ناجائز قبضوں سے آزاد نہ کراکر انہیں کھلےعام عبادت نہ کرنے کی تلقین کرتی ہے تو زہریلی سیاست کا پورا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتاہے ۔جو لوگ مسلمان بادشاہوں خاص کر مغلیہ سلاطین کو انکی ہندومخالف پالیسیوں(جبکہ یہ تحقیق بھی مفروضہ ہے )کو بنیاد بناکر ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے ہیں،کیا آج انہیں اپنی مکروہ پالیسیوں پر غورنہیں کرنا چاہئے ۔اگر مسلمان بادشاہوں پر انکی پالیسیوں کی بنیاد پر آج تک تنقید کی جارہی ہے تو پھرتاریخ کا حافظہ اتنا کمزور نہیں ہوتاکہ وہ فرقہ پرستی اور ذات و مذہب کی بنیاد پر واقعات کو یاد نہ کرے ۔تاریخ تو ہر واقعہ اور ہر حادثہ کو محفوظ کرتی ہے اور پھر مستقبل میں مکروہ پالیسیوں پر تنقید بھی ہوتی ہے ۔اس ملک کے سیکولرافرادکو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر مسلمان بادشاہ جبروظلم سے ’’ دھرپریورتن‘‘ کرنے کی ٹھان لیتے تو آج ہندوستان ایک مسلمان ملک ہوتا اور تمام ہندوستانی قومیں اور ذاتیں مسلمان ہوتیں ،مگر مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان کی سیکولر روح کو مرنے نہیں دیا اور سیکولر حکمت عملی کو اپناکر ہی حکومت کرتے رہے ۔اس ملک میں وہی ذاتیں مشرف بہ اسلام ہوئی ہیں جن پر اعلیٰ ذات کے ٹھیکداروں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔سماج پرمذہبی اجارہ داری نےدلتوں کو اچھوت سمجھ کرذلت کے تحت الثریٰ میں دھکیل دیاتھا لہذا وہ مسلمان ہوتے گئے ۔یہ اس ملک کے مذہبی ٹھیکداروں کی سیاسی غلطیاں ہیں جن کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی سیاست کی جارہی ہے ۔بہتر ہے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ خود کریں اور دوسروں کو الزام دیکر اپنا دامن بچانے کی کوشش نہ کریں۔’’گھر واپسی ‘‘ سے پہلے یہ غوکریں کہ یہ لوگ ’’گھر‘‘چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے ۔اگر ہم تاریخی حقائق کو سمجھ کر سماج میں زندگی گزاریں گے تو فرقہ پرست طاقتیں کبھی ہماری جہالت کا فائدہ نہیں اٹھاسکیں گی ۔بیدار ہوں اس سے پہلے کہ تاریخ ہی بدل دی جائے ۔