اسٹار رائزنگ ویلفیئر فائونڈیشن کے زیر اہتمام ’جوش ملیح آبادی‘پر سمینارکا انعقاد

لکھنؤ: نظم نگاری نے جوشؔ کو اس مقام پر پہنچا دیا جس کے آگے صرف اقبالؔ کی منزل تھی۔ صنفِ نظم میں جوشؔ کو اپنی تمام تر شعری صلاحیت و قدرت دکھانے کا موقع ملا، جس کا انہوں نے بڑی سچّائی اور ایمان داری سے بھر پور اظہار کیا ۔ یعنی، ہر لمحہ بدلتے حالاتِ زندگی ، زمان و مکان کی ایک کے بعد دوسری تبدیلی،دلی کیفیات کا جزر و مد؛ سیاسی ، فلسفیانہ اور علمی شعور و نظریے میں نت نئے بدلاؤ -یہ سب کچھ جوشؔ کے کلام میں صاف-صاف نظر آتا ہے،جو جوشؔ کو ایک سچّا شاعر ثابت کرتا ہے،جو ش نے نت نئے الفاظ کو استعمال کرکے اپنی منزل دوسروں سے الگ مختص کی اسی لئے جوش کی شاعری اردو زبان وادب کیلئے عظیم سرمایہ ہے۔مذکورہ خیالا ت کا اظہارپروفیسر آصفہ زمانی ،چیئرپرسن اترپردیش اردو اکیڈمی نے اسٹار رائزنگ ویلفیئر فائونڈیشن کے زیراہتمام واترپردیش اردو اکادمی کے مالی تعاون سے منعقد سیمینار’’جوش ملیح آبادی حیات وخدمات‘‘ یوپی پریس کلب میں کیا۔

سمینار کے آغازسے قبل صدرجلسہ اورمہمانوں کا استقبال شہنازخان، حنا خاں اورضیاء اللہ صدیقی نے پھولوں سے کیابعداستقبال فائونڈیشن کی روح رواں شہنازخاں نے فائونڈیشن کے اغراض ومقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی،اس کے بعد ڈاکٹرعشرت ناہید کی خوبصورت نظامت میں سمینار کا باقاعدہ آغاز کیاگیا۔

سمینار کی صدارت کرتے ہوئے سدر اللہ انصاری نے کہا کہ جوشؔ، اپنی نظم نگاری کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں لیکن بطور ایک مشّاق شاعر کے اُنہوں نے تمام اصنافِ نظم میںبھر پور طبع آزمائی کی۔ ابتداے مشقِ سخن غزل گوئی سے ہی کی اورخوب خوب گلکاریاں کیں۔ معاملاتِ حسن و عشق ، انسانی نفسیات، حقیقتِ حیات و کائنات جیسے لطیف معروضات سے لبریز غزلیں جوشؔ کے وقارِشعری کو بڑا اعتبار بخشتی ہیں۔

مہمان اعزازی ڈاکٹرسلطان شاکر ہاشمی اورسیمینار کی ناظمہ ڈاکٹر عشرت ناہید نے کہاکہ لکھنؤ کی ادبی سرگرمیوں میںجوشؔ کو تحقیقِ الفاظ کا بھی شوق ہوا یہاںتک کے زبانِ اردوئے معلّا پر انہیں استناد و اجتہاد حاصل ہوگیا۔ لفظوں کے بے انتہا و بر محل حسنِ استعمال کی قابلیت کے سبب ـ’’لفظوں کے بادشاہــ‘‘ بھی کہلائے! یہاں تک کہ حریفوں نے بھی یہی کہا کہ ، ’الفاظ اِن کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں!ـ‘

صحافی غفران نسیم اورضیاء اللہ صدیقی نے اپنے تحقیقی مقالوں میں کہا کہ جوشؔ ملیح آبادی کو عام طور پر شاعر اور نظم نگار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کے نثری ادب کو فراموش کردیا جاتا ہے ،حالانکہ ان کا نثری ادب بھی آب زرسے لکھے جانے کے لائق ہے۔جوشؔنے نئے صوتی آہنگ دیے؛ پھڑپھڑاتے ہوئے پرندوں اور دیگر درندں اور چرندوں کی آوازوں کو معنی دئے اور اُن کا محلِ استعمال پیدا کیا۔۔۔۔زبان کے معاملے میں تو جوشؔ کا قول حرفِ آخر ہوتا تھا۔

دیگر مقالہ نگار ڈاکٹرجاںنثارعالم اورڈاکٹرمسیح الدین خان نے کہا اردو شاعری میں جوشؔ شاعر انقلاب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ان کو جوشیلہ انداز بیان ان کی شاعری کی انوکھی شان وشوکت ہے۔جو انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔

سیمینار کے اہم شرکاء میں ،شہانہ سلمان عباسی،ڈاکٹرشبانہ،شان اسلام،محمدیونس سلیم،صحافی ہمایوں چودھری،حنا خان،شہنازخان،طارق قمر، قمراللہ،صبیحہ سلطانہ،شکحکمہ سلطانہ،نسرین حامد،ضیاء اللہ صدیقی ،نثار احمد،عبدالنعیم قریشی، رفیع احمد،محسن خان،اسماء مقبول،ذیشان،دانش،شہریار جلال پوری،نجم الحسن،حاجی محمدفہہم صدیقی وغیرہ تھے۔ پروگرام کے آخر میں کنوینر پروگرام حنا خان نے پروگرام کی کامیابی کیلئے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ اداکیا اور اسی کے ساتھ ہی ختم پروگرام کا اعلان کیا۔