عارف نقوی ,برلن

پروفیسر محمود الحسن رضوی ایک بہترین پر خلوص دوست مزاج انسان ہی نہیںبلکہ اردو ادب کا روشن ستارہ تھے۔جن سے بہت سی یادیں وابسطہ ہیں۔ افسوس کہ ہمارے عہد کا ایک اورستارہ روپوش ہو گیا ہے۔ میں جب ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ یہی نہیں کہ وہ میرے استاد پروفیسر احتشام حسین کے رشتے دار اور شاگرد تھے، جن کے گھر پر بارود خانہ لکھنئو میںاتوارکو انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔بلکہ یونیورسٹی میں بھی ہماری ادبی سرگرمیوں میں معاون رہتے تھے اور مختلف مسائل پرپر خلوص رائے دیتے تھے۔ جرمنی آنے کے کچھ سال بعد مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے احتشام صاحب کے زیر سایہ ڈاکٹریٹ کر لی ہے۔پھر کچھ عرصے بعد انہوں نے شعبے کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔لیکن ان کی منکسرالمزاجی اور دوستانہ طبیعت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ۸ ؍مارچ ۱۹۹۵ء کو ہم نے حیدرآباد میں ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کی آل انڈیا کانفرنس میں شرکت کے لئے اے پی ایکسپریس سے ایک ساتھ سفر کیا تھا۔

ابھی چند ہفتے قبل جب میں لکھنئو میں تھا تومجھے خبر ملی کہ محمود لکھنئو آئے ہیں لیکن ایک اسپتال میں بھرتی ہیں کیونکہ ان کی کمر کی کوئی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ میں شارب ردولوی کے ساتھ انہیں دیکھنے گیا، لیکن یہ خبر نہ تھی کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے اور وہ ہم سے اتنی جلدی جدا ہو جائیں گے۔ غالباً وہ ہم سے عمر میں بڑے نہیںتھے۔ محمود کی جدائی کے بعد ہمارے عہد کا، بلکہ دوستوں میں ایک اور ستارہ روپوش ہو گیا ہے۔خدا ان کی مغفرت کرے اور اپنے رحم و کرم کے سائے میں جنت نصیب کرے اور ان کے بیٹے، بیٹی ، بھائیوں اور رشتے داروں اور دوستوں کو صبر کی قوت عطا کرے۔کاش میرے ہم وطن اہل لکھنئو محمود کی شایان شان یادگار قائم کریں اور انسانیت، محبت اور دوستی کے ان کے پیغام کو عملی جامہ پہنائیں۔محمود، جو برسوں لکھنئو سے باہر رہنے کے بعد یہاں لوٹ کر ممبئی سے اس لئے آئے تھے کہ انہیں اپنی خاک پیاری تھی۔