ڈاکٹر عباس رضانیّر،صدر شعبۂ اردو،لکھنؤ یونیورسٹی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب

آج ہمارے اساتذہ اور طلبا ء کو اردو ادب میں مخطوطات پر تحقیق کی طرف متوجہ ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ مخطوطات ہمارے ادب کا ایسا سرمایہ ہیں جن کا تحفظ اور جدید تحقیقی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی ترتیب و تدوین نہ کی گئی تو اد ب کا ایک بڑا سرمایہ منظر عام پر آنے سے قاصر رہ جائے گا۔اردو کے مقابلے عربی اور فارسی زبانوں میں اس کی طرف توجہ دی گئی ہے ۔آج کے دور میںعالمی سطح پر دستیاب ڈیجیٹل وسائل کا استعمال کر کے اس کام کو بہ خوبی انجام دیا جا سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو ، لکھنؤ یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر عباس رضا نیر نے دہلی میں منعقدہونے والے سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سیمینار میں کیا۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے اشتراک سے منعقد ہونے والے اس سہ روزہ سیمینار کے اختتامی اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر عباس رضا نیر نے مزید کہا کہ دیگر شعبہ جات میںتحقیق کی بہ نسبت ادب میں تحقیق ایک منفرد اور مشکل مرحلہ ہے۔ادیب چونکہ ایک حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے اور وہ زمانے کے نشیب و فراز سے خوب واقفیت رکھتا ہے۔ایک عمدہ تحقیقی کام انجام دینے کے لئے تخلیق کا وسیع تناظر میں مطالعہ اور اصل متن کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ بے حد ضروری ہوتاہے۔انہوںنے کہا کہ ادب میں ایسے کاموں کے لئے غالب انسٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نے شاندار سمینار کے انعقاد کی جو روایت شروع کی ہے،اس کے لئے دونوں ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اس سے قبل ہندوستان کی مختلف دانش گاہوں کے علاوہ بیرون ملک کے اردو اور فارسی کے ریسرچ اسکالرز نے اپنے مقالات پیش کیے۔اختتامی اجلاس میں اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے ترکی کی استنبول یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرآرزو سورین نے کہا کہ ایسا سمینار ترکی میں بھی نہیں ہوتا۔ یہاں شرکت سے میں خوش ہوں۔تہران یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر معصومہ غلامی نے کہاکہ اس سمینار میں شرکت میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ یہاں بیٹھ کر مقالے سن کر نئے نئے موضوعات پر لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ماریشس کی بی بی سکینہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا اسٹیج ہے، جہاں ہمیں پیپر پیش کرنے کا موقع ملا یہ میرا بڑا اعزاز ہے۔ جاپانی اسکالر مورا کامی آسوکا نے کہا کہ میں قومی کونسل اور غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا۔ اس سمینار میں شرکت کرکے بہت کچھ مجھے سیکھنے کا موقع ملا۔

آخری روز کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسرعزیزالدین حسین ہمدانی وپروفیسر ابن کنول نے کی۔اس اجلاس کی نظامت محمد شفیق عالم نے کی۔اس اجلاس میں محمد توصیف خان،غلام نبی کمار،محمد ثناء اللہ ،اعجاز احمد،محمدصالح ظفر،محمد فیضان حسن نے اپنے مقالات پیش کیے ۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبیدالرحمان ہاشمی اور پروفیسر علیم اشرف خاں نے کی نظامت نورین علی حق نے کی اس اجلاس میں معصومہ غلامی ،بی بی سکینہ، صالحہ صدیقی، ایس ٹی نور اللہ، امتیاز احمد علیمی،محمد فرحان، نائلہ تبسم، احسن ایوبی ،ابراہیم وانی،تنویر احمد میر اورشہناز رحمان نے اپنے مقالات پیش کئے۔

آخری دن کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر رضوان قیصر نے کی ۔ اس اجلاس کی نظامت توحید حقانی نے کی ۔اس اجلاس میں آرزوسورین ،نورین علی حق ،نیلوفریاسمین،شہ نور حسین،افتخار احمد،محمد سلیم ،سمیہ بانو ،عابدعلی خان اور محمد معین خان نے اپنے مقالات پیش کیے ۔اختتامی اجلاس کے بعد تمام مقالہ نگاروں ،ناظموں اور ریسرچ اسکالرز مع سامعین کو سرٹی فکیٹ دیے گئے ۔اختتامی اجلاس میں اسٹیج پر موجودتمام ناقدین اور اساتذہ کے ہاتھوں ریسرچ اسکالرز شہاب الدین قاسمی کی کتاب بیسویں صدی کا وضاحتی اشاریہ نامی کتاب کی رسم اجرابھی ہوئی ۔

سمینا رمیں بڑی تعداد میں ڈاکتر منتظر مہدی ،کرار حسین ، یاسر انصاری، محمد حسن، اجے کمار سنگھ، سعودوعالم ،علی ظفر ، بشریٰ صدیقی وغیرہ کے ساتھ تمام ا ساتذہ اورریسرچ اسکالرز، ایم اے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور گفتگو میں حصہ لیا۔اختتامی اجلاس میں ڈاکٹر سید رضا حیدر، ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ کلمات تشکر سے اس سہ روزہ سیمینار کا ختتام ہوا۔