خواجہ سیّد محمد یونس

مغلیہ سلطنت کے دور میں جو عربی مدارس تھے ان میں کا اکثر کا ذریعہ تعلیم فارسی تھا ۔ ۱۸۵۷ئ؁ کی جنگ کے بعد انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ ہوگیا ۔اس وقت مسلمان بز رگوں کو سب سے بڑی فکر یہ ہوئی ،کہ مسلمان عیسائی مذہب قبول کرنا نہ شروع کردیں چناچہ اس خطرہ سے نپٹنے کیلئے اکابرین ملت سر جوڑبیٹھے اور یہ فیصلہ ہوا کہ دینی اسلامی مدارس قائم کئے جائیں ۔ نتیجے میں متعدد مدارس قائم ہوئے ۱۸۷۵ئ؁ میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی ۔اور اسی سال مصلح قوم سرسید احمد خاں نے علیگڑھ میں مدرسۃالعلوم کی بنیاد رکھی ، دارالعلوم دیوبند نے دینی علوم کی تعلیم ار دو زبان کے ذریعہ مسلمانوں کے مذہب کو بچایا ادھر سرسید نے یہ محسوس کیا کہ اگر مسلمان انگریزی تعلیم سے نابلد رہے تو وہ حکومت سے کٹ کر رہ جائیں گے ۔ اس لئے وہ دینی و عصری انگریزی تعلیم بھی حاصل کریں ۔

یہ حقیقت ہے کہ دونوں اداروں کے ذمہ داران مخلص تھے ۔ لیکن دارالعلوم کا تعلق چوں کی مذہبی تعلیم سے تھا اس وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا گیا ۔ اور یہاں سے نکلنے والے علماء ملک کے دوسرے حصوں میں اسی طرز کے مدارس قائم کرتے چلے گئے جن کا ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس زمانے کی اردو میں فارسی اور عربی کی اتنی آمیزش تھی کہ آج کے اردو والوں کے لئے اسے آسانی سے پڑھنا مشکل ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا زبان سلیس اور آسان ہوتی گئی ۔ملک کی آزادی سے پہلے پورے ملک پر اردو چھا چکی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے اکثر بڑے عالموں نے قرآن پاک کے ترجمے اور تفسیریں اردو میں لکھیں ۔ اس طرح گھر گھر میں اردو کو پہنچا دیا ۔مردوں کے علاوہ گھر کی خواتین اور لڑکیاں بھی ترجمہ قرآن شریف اور احادیث پڑھنے کے شوق میں اردو سے واقف ہوتی چلی گئیں ۔

ان ہی مدارس سے فارغ ہو کر نکلنے والے علماء نے دینی و اصلاحی کتابوں کے انبار لگا دیئے ۔ حضرت مولانا اثر ف علی تھانوی ؒکی سینکڑوں کتابوں میں سے صرف ایک ضخیم کتاب بہشتی زیور لاکھوں گھروں میں گئی ۔ اور ہر گھر میں خواتین نے اس سے فائدہ اٹھایا ۔ ان مدارس کے علاوہ اردو ، انگریزی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔اورانٹیل اکزامینیشن یعنی امتحانات علوم مشرقیہ منشی، کامل، دبیر ماہر، دبیر کامل ، مولوی ،عالم اور فاضل کے امتحانات پاس کرنے والے ہی ان انگریزی اسکولوں میں بھی اردو پڑھاتے تھے۔ان کا پڑھانااور پڑھنے وا لوں کا محنت سے پڑھنے کا نتیجہ ہی ہے کہ اس دور میں مسلمانو ں کے علاوہ ان گنت غیر مسلم حضرات جیسے رتن ناتھ سرشار ، منشی پریم چند ، کرشن چند چکبشت ، فراق ، تلوک چند محروم ، جگن ناتھ آزاد چوٹی کے مصنفین اور شعراء پیدا ہوئے ۔

ہندوستان کو آزادی ملی تو قومی زبان کا مسئلہ پیداہوا کہ کون سی زبان ہو ؟ مہاتما گاندھی نے مشورہ دیا کہ ’’ زبان کا نام ہندوستانی ہو اور وہ دونوں رسم الخط میں لکھی جائے ‘‘ لیکن اردو کی مقبولیت سے خوف کھاتے ہوئے اور اسے مسلمانوں کا زبان سمجھنے والے کم عقل ہندی پریموں نے اس تجویز کو نہ مانا ۔اور سرکاری زبان ہندی قرار دے دی گئی اس کے بعد اسی طبقے نے اردو کو ختم کرنے کے لئے ایک تو اسے روزی روٹی سے بے تعلق کرکے سرکاری اسکولوں میں فارسی اور اردو کے مضامین ختم کئے ۔ اور دوسری اسکیم یہ بنائی کہ اگر کوئی لڑکا اردو کے کسی بھی کلاس میں امتحان دے تو اسے فیل نہ کیاجائے ، تاکہ زبان کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے ۔

اس طبقہ نے ایک پلان یہ بھی بنایا کہ ’’اردو کو بیس سال بے گھر بے درچھوڑ دیا جائے ‘‘ چناچہ سرکاری اسکولوں میں اردو کے درجات ختم کردیئے گئے ۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ایک نسل اردو سے بے بہرہ ہوجائیگی ۔ تو دوسری نسل سے اس کا تعلق خود بخود ختم ہوجائیگا ۔ لیکن خداسلامت رکھے ہمارے مدارس کو کہ انھوں نے اردو کو صرف ذریعہ تعلیم ہی نہیں بنایا بلکہ اپنے طالب علموں کو اردو مضامین اور مقالے لکھنے سکھائے ، اردو خطابت میں ماہر بنایا اور گائوں گائوں مدرسے قائم کر دئے جس نے صرف اسکولوں کی کمی ہی نہیں پوری کی بلکہ اسکولوں کے مقابلے میں اردو کو کئی گنا فروغ دیا ۔اس کا اندازہ یو ں لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے تقسیم کے وقت لکھنو سے قومی آواز، تنویر، ہمدم، حقیقت اور حق نام کے پانچ روزنامہ اخبارات نکلتے تھے پھر تقسیم کے بعد دو سال کے اندر صرف قومی آواز ہی زندہ رہ گیا ادھر حکومت کی اردو مخالفت جاری رہی ،اسے مدارس کا فیض ہی کہا جائیگا ۔ کہ آج تین اخبار تو رنگین نکل رہے ہیں اور کالے سفید نہ جانے کتنے نکل رہے ہیں اس کی تعداد شاید انفارفیشن کو معلوم ہو تو ہو ورنہ کسی کو نہیں معلوم ۔

رہے ہمارے مدارس عربیہ جو صرف مسلمانوں کے ذاتی اخراجات اور تعاون سے چل رہے ہیں انکی تعداد بھی معلوم نہیں ہاں ـ۔ لکھنو کا سب سے بڑا بین الاقوامی مذہبی ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء ہے ، جس میں ۱۹۴۷ئ؁ میں شاید ڈیڑھ سو لڑکے پڑھتے تھے ،وہاں آج تین ہزار سے زیادہ لڑکے پڑھتے ہیں ، یہاں کے فارغین نے گذشتہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے براعظم ایشیامیں بلامبالغہ کئی کروڑ صفحات اردومیں لکھے ہونگے ،جن کی ہزاروں کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہی ہیں ،اور یہ سب اردو کی پرورش کررہے ہیں ۔ علاوہ ازیں آج ملک اور صوبہ میں چند مدارس ایسے کہے جاسکتے ہیں ۔ جنہوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے ۔ ان میں جامعہ سلطان المدارس ، لکھنو مدرسہ ناظمیہ عربک کالج ، مدرسہ ٹکسال فرنگی محل لکھنو ،مظاہرالعلوم سہارن پور ، مدرسہ شاہی مرادآباد ، جامعہ سلفیہ بنارس ، نورالعلوم بہر ائچ ، مئو، اعظم گڑھ ، اور نہ جانے کتنے کیسے ادارے ہیں جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہے ، جو دینیات کے ساتھ ساتھ اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اگر خدا نخواستہ ہمارے یہ مدارس نہ ہوتے تو اردو صرف بول چال کی زبان رہ جاتی ، لکھنے پڑھنے کی نہیں اور اس سے اندازہ کر لینا چاہئے کہ مدارس کی اجتماعی طاقت نے مسلمانو ں کے دین کو بچایا ، اور انکی دنیا بھی سنواری اور اردو جیسی شیریں زبان کو بھی مرنے سے بچالیا۔ آج ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ملک بھر کی سرکاری دانش گاہوں سے جو لڑکے اردو کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں اس سے پچاس گنا ایک سال میں ہمارے مدارس ا ردو کے مضمون نگار ملک کو دے دیتے ہیں ۔

انگریزوں کے وقت میں ۱۹۲۶ئ؁ میں گورمنٹ نے ایک ادارہ عربی فارسی بورڈ اترپردیش کے نام سے قائم کیا ۔جس کا صدر دفتر الہ آباد تھا ۔ اس وقت اکابرین میں مولانا حفظ الرحمن ،مولانا سعید اکبرآبادی ،اور مولانا ابولکلام آزاد ، جیسی عظیم شخصیتیں تھیں جو اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دلانا چاہتی تھیں۔اس کا ایک مدرسہ سرکاری سطح پر رامپور میں بھی قائم کیا گیا ان مدارس میں درجہ ایک سے پانچ تک تحتانیہ ، درجہ چھ سے آٹھ تک فوقانیہ ، اور دامتحانات فارسی میں منشی کامل ، تین امتحانات عربی میں مولوی ،عالم ، اور فاضل قائم کئے جس کا انتظام و انصرام رجسٹرار عربی فارسی کے ذمہ رہا اور وہی اس کے انسپکٹر بھی رہے ۔

اسی طرح حکومت نے ایک ادارہ سنسکرت ، کا بنارس میں قائم کیا جس میں سنسکرت امتحانات پرویشکا ، پوریہ مدھیمہ اترمدھیما شاستری آچاریہ جو محکمہ تعلیمات اتر پردیش سے وابستہ تھے یہ دونوں ادارے ڈائرکٹر یوپی کے زیر نگرانی کام کررہے تھے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سنسکرت امتحانات کو سمپورنا نند یونیورسٹی قائم کرکے انکے امتحانات کو محکمہ تعلیمات بورڈ سے ہٹاکر سمپور نانند یونیورسٹی سے وابستہ کردیا گیا ، اور اس ادارے کو وہی مراعات دی گئیں جو یونیورسٹی کو حاصل ہے ۔ جب کہ مدارس عربیہ اترپردیش کو جونیر سطح تک درجہ دیا جاسکا ، اور اسے بیسک تعلیم سے جوڑ دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی کا مسئلہ اور آگے کی کارروائی مسدود ہوگئیں ۔

حکومت جزوی طور پر کچھ مدارس عربیہ کو امداد بھی دیتی رہی اور درجہ ایک سے درجہ فاضل تک ان کا ذریعہ تعلیم اردو ہے ، ۱۹۷۲ئ؁ کے بعد پورے اترپردیش میں مد ا رس عربیہ کا جال بچھ گیا اور اس بورڈنے روٹی روزی پیداکرنے کا ذریعہ بن گیا ۔اس طرح یہ کہا جائے کہ مدارس عربیعہ کے ذریعہ سے ہی اردو کے فروغ کو بقا حاصل ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس وقت تقریباًپورے اترپردیش میں عربی فارسی مدرسہ بورڈ سے الحاق شدہ تین ہزار مدارس سر گرم عمل ہیں ۔ اور تقریباً ۳۰۰ مدارس امداد یافتہ بھی ہیں ۔

۱۹۴۷ئ؁ کے بعدسے کوئی اردو میڈیم اسکول سرکاری یا غیرسرکاری نہیں رہ گیا اور نہ اسے تسلیم کیا گیا ساتھ ہی ساتھ ذریعہ تعلیم ہندی ہو گیا افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اترپردیش جیسا عظیم صوبہ جس میں اردو میڈیم کا سرکاری سطح پر پر ائمری سے انٹر تک کو ئی بھی ادارہ اردو میڈیم اسکول یا کالج نہیں ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں اردو میڈیم اور کالج پائے جاتے ہیں۔ملک کی سرکاری زبان ہندی ہوگئی اور سرکاری اداروں میں اردو کی گنجائش نہیں رہی تو چند سرکاری اسکولوں میں ایک مضمون کی حیثیت سے اردو بھی شامل کردی گئی جو رسمی طور پر سہ لسانی زبان کے طور پر بھی کہیں کہیں باقی ہیں ۔

ان ہی حالات کے مدنظرجب صوبہ کے حالات کا جائزہ لیا گیا تو مختلف فکر کے لوگوں نے مسلکی اختلافات کو الگ رکھ کر اور سر جوڑ کر ۱۹۵۹ئ؁ میں ایک عظیم صوبائی کانفرس ضلع بستی میں بلائی ۔ اس کانفرس کی صدارت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ نے فرمائی اس کے جنرل سگریٹری مجاہد اردو اور مجاہد آزادی قاضی محمد عدیل عباسی مقرر ہوئے اس کانفرنس کے اکابرین میں مولانا منظور نعمانی ، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی ، مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، قیم جماعت اسلامی ہند ، مولانا محمد یوسف ، مولانا ابوالیث ندوی ،مولانا شاہد فاخری ،مولانا عبدالرئوف جھنڈا نگری ، مولانا ہاشم میاں فرنگی محلی ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ، مولانا محمود الحسن عثمانی ، ظفر احمد صدیقی ایڈوکیٹ سیتا پوری، اور شفیق الرحمان ایڈوکیٹ ، شیخ منتصراللہ اور مولانا ابوالقاسم شاہ جہاں پوری ، سکریٹری جمیعۃ العلماء جیسی عظیم شخصیتیں شامل تھیں ۔اس کانفرنس نے ایک ادارہ دینی تعلیمی کونسل اترپردیش کے نام سے قائم کیا جس کا صدر دفتر لکھنو میں قائم ہوا اور اس سے وابستہ اضلاع میں ضلعی سطح پر انجمن تعلیمات دین کے نام سے اس کی شاخیں قائم کی گئیں جس میں درجہ ایک سے درجہ پنجم تک نصاب تعلیم ترتیب دیا گیا جس کا ذریعہ تعلیم اردو رہا اور دین کے ساتھ مروجہ عصری مضامین جو رائج تھے اردو زبان میں پڑھنے کا بندو بست کیا گیا ۔ ان مکاتب کا دائرہ ضلع سطحی تک گائوں گائوں چٹکی ، کھلیانی، و چندہ کے ذریعہ وسیع کیا گیا یہ تمام مکاتب اسلامیہ ضلع انجمن سے ملحق ہوئے اور یہ سبھی مکاتب آزاد خود کفیل معیاری اسکیم کے تحت چلائے گئے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

مذکورہ اداروں نے اردو ادب کی کافی خدمات انجام دی اور دے رہے ہیں ، رفتہ رفتہ یہ سلسلہ مکاتب کا بھی زوال پذیر ہے اس کی جگہ عربی فارسی مدرسہ بورڈ جو اس وقت ایک گورنمنٹ کا ادارہ ہے جسمیں پرائمری یا جونیر سطح سے آگے عالم اور فضیلت تک کی ت علیم دی جارہی ہے اس کا بھی ذریعہ تعلیم اردو ہی ہے ۔ اور جومحنت دینی تعلیم کونسل اور جمیعۃ العلماء ہند کے اکابرین نے کی تھی رفتہ رفتہ رو با زوال ہے ۔ ان مکاتب اور مدارس کارجحان اب عربی بورڈ کی طرف مالی مفاد کے مد نظر منتقل ہورہا ہے ۔ اور تیز رفتاری کے ساتھ لوگ اس سے وابستہ ہورہے ہیں جس میں روزی روٹی کے مسائل کے حل ہونے کی امید ہے ۔ دینی تعلیم کونسل کے جو آزاد اور خود کفیل معیاری ادارے یامکاتب تھے ،زیادہ تر ادارے اس بورڈ سے ملحق ہوچکے ہیں ، اور ہورہے ہیں ،اس طرح اگردیکھا جائے اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آزادی کے بعد اردو بالخصوص اگر یوپی میں زندہ رہی تو انھیں مدارس عربیہ کی بدولت ۔ اور جوبھی اترپردیش میں اردو کا چلن اور رواج ہے یا جس زبان و بیان کا استعمال ہو رہا ہے وہ ہمارے مدارس عربیہ کی دین ہے ۔ اگر ان مدارس عربیہ کا وجود نہ ہوتا،اور اکابرین علماء کرام مدارس عربیہ کی طرف توجہ نہ فرماتے تو شاید اترپردیش سے زبان اردو ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ہوتی ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مالی منفعت کونظر انداز کیاجائے اور مدارس کو جہاں تک ممکن ہو اس لعنت سے دور رکھا جائے، اور خود کفیل آزاد مدارس مکاتب قائم کئے جائیں معمولی منفعت کے پیش نظر اپنا دینی سرمایہ ضائع نہ کریں ، تاکہ اس کاتشخص ،اسکا معیار اور آزادی باقی رہے اور گو ر نمنٹ کی گرفت مدارس پر اثر انداز نہ ہوسکے ۔