ڈاکٹر خواجہ سید محمد یونس

شعور کو مہمیز کرنے والے عناصر میں تعلیم ،یاد داشت عقل سلیم (کامن سینس ) اور اضطراری افعال کے علاوہ تجربے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اکتساب اور تجربہ شعور کے فروغ میں اہم کردار انجام دیتاہے ۔انسان علم اس لئے حاصل کرتا ہے ۔ کہ اس کا شمار سماج کے باشعور اور سمجھدار انسان میں ہو ، تعلیم یاد اشت عقل سلیم (کامن سینس) اور اضطراری افعال یہ چار عناصر تجربہ سے ہم آہنگ ہوکر طلباء کے شعور (ذہانت) کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں ۔یہ بات نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ ذہانت کو ئی عطائی شئے نہیں ہے ۔بلکہ اکتساب کے ذریعے اس کا حصول ممکن ہے ۔پیدائشی طور پر جانوروں میں انسان سے زیادہ ذہانت پائی جاتی ہے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی ذہانت جمود کا شکار ہوجاتی ہے جبکہ انسان کی ذہانت عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر رہتی ہے ۔ اگر انسانی ذہن بھی جمود کا شکار ہوجائے تو انسان اور جانور میں کوئی خاص فرق نہیں رہے گا ۔ جانور اپنی زندگی کا ۷۰ فی صد حصہ غذا کی تلاش میں صرف کرتے ہیں جبکہ انسان اس کام کے لئے صرف دس فیصد وقت صرف کرتا ہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی کچھ انسان جانوروں کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں وہ تعلیم کو ایک مشغلے شوق و ذوق کے بغیر ایک ذمہ داری کے طور پر انجام دے رہے ہیں اور امید ہے کہ کوئی معجزہ انکے مستقبل کو بدل دے گا ۔ انکی زندگی جوش و ولولہ سے عاری ہے ۔ ان میں خواہش اور دلچسپی نہیں پائی جاتی ، خواہش اور دلچسپی دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ایک ڈاکٹر (طبیب ) یا انجینئر بننے کے خواہش مند طالب علم کے لئے سائنسی علوم سے رغبت ناگزیر ہے ۔ بدقسمتی سے طلبااس امر کو دلچسپی کے بجائے ایک ذمہ داری کے طور پر لیتے ہیں ۔انکے پاس خواہش تو ہوتی ہے لیکن ان میں دلچسپی اور ذوق و شوق کا فقدان پایا جاتاہے ۔ انسان اور حیوان کے مابین کئی امتیازات پائے جاتے ہیں ۔ جن کومختصراًتین زمروں یا درجات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ (۱) ذہانت (شعور) و استدلال (۲) احساس کی دولت (۳) جدید ترقی یافتہ مہارتوں اور تکنیک کا استعمال مذکورہ تین اوصاف انسانوں (طلبا ) میں مختلف تناسب میں پائے جاتے ہیں لیکن جب یہ اوصاف طلبا میں مطلوبہ تناسب میں ہوں تو فقید المثال کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔ایک طالب علم لازمی استعدادوں سے عاری ہوکر صرف خواہش اور شعور کے بل پر کایابی حاصل نہیں کرسکتا کامیابی کے لئے خواہش (جذبہ و ولولہ ) صلاحیت اور ذہانت شعور کا ہونالازمی ہوتاہے ۔ ذہن جب کسی شئے کی خواہش کرتاہے تب ذہانت اسکی تکمیل کے راستے تلاش کرتی ہے ۔ خواہش صلاحیت اور ذہانت ہر طالب علم میں کسی نہ کسی تناسب میں پائی جاتی ہے ۔ لیکن جو طالب علم ان عناصر کو مطلوبہ تناسب میں اپنے آپ میں جمع کرلیتاہے وہ صف اول کا انسان (طالب علم ) بن جاتاہے۔ ہر طالب علم میں اعصابی نظام یکساں ہوتاہے ۔ پڑھایا گیا مواد مساوی رفتار سے تمام طلباکے ذہنوں تک پہنچتاہے لیکن طلبا دلچسپی کے فقدان کے باعث اس کو قبول نہیں کرپاتے مضمون کی ذہن تک رسائی کا معاملہ اعصابی نظام سے نہیں بلکہ طلباکے دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے اکثر والدین بچوں کے بارے میں تین طرح کی شکایت کرتے ہیں (۱) میرا بچہ بہت ہی ذہین ہے لیکن وہ اپنی توجہ نہیں جٹا پاتا۔ (۲) میرا بچہ بہت اچھا پڑھتاہے لیکن اسے یاد نہیں رہتا (۳) میرا بچہ عمدہ تعلیمی مظاہرہ کرسکتاہے لیکن یہ پڑھتا نہیں ہے ۔فطری طور پر والدین کے ان سوالات میںکوئی بنیادی فرق نہیں پایا جاتا ،تینوں سوالات ایک جیسے ہی ہیں ۔ والدین اپنے بچوں کے خراب تعلیمی مظاہرے کی پردہ پوشی کے لئے مذکورہ بہانوں کاسہارا لیتے ہیں ۔ طلبا کی ذہانت پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں بیشک صحت غذا گھر اور اسکے آس پاس کا ماحول دوست اور تعلیمی ماحول قابل ذکر ہیں لیکن ان میں طالب علم کی ذہنی آمادگی ہی سب سے اہم ہے ۔ اکثر طلبا مغالطے میں رہتے ہیں ۔کہ دماغی خرابی جینیس یا اعصابی نظام کی خرابی کی وجہ سے وہ بہتر تعلیمی مظاہرہ نہیں کررہے ہیں ۔

یہ حقیقت ہے کہ محنت کے بغیر کوئی شئے حاصل نہیں ہوتی لیکن محنت کاجذبہ پیدا کرنے کے لئے بچوں میں دلچسپی کو فروغ دینا ضروری ہے ۔یہ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ بچوں کے لئے ایسا تعلیمی ماحول فراہم کریں جسکو بچے ایک خوشگوار تجربے سے تعبیر کریں ۔ وہ بچوں کی رہنمائی کریں کہ وہ ایک اچھے مستقبل کے لئے وہ اپنے بچپن کو مشغول کریں ۔ غیر ضرور ی تفریحات کو مئوخر کریں ۔ بچوں کی ذہن سازی اس طرح کی جائے جس طرح وہ اپنے پسندیدہ کھیل کارٹون شو اور کامک کے مطالعے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح اپنی تعلیم بھی میں مسرت تلاش کریں ۔ اور اگرچہ احساس بچوں میں جاگزیں ہوجاتا ہے تو انکا بچپن تروتازہ ہوجائیگا ۔ تعلیم برائے مسرت کا رجحان اگر والدین بچوں کے ذہن میں جاگزیں کردیں تو یقینابچے تعلیم کو فروغ کے طور پر قبول کریں گے ۔ اور تعلیم میں دلچسپی لیں گے ۔ کام اس وقت مشکل بن جاتاہے جب ہم اس سے رغبت نہیں رکھتے ۔

والدین زندگی کی امتحان میں اگر اپنے بچوں کو کامیاب و کامران دیکھنا پسندکرتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ ذہنی تربیت پر توجہ دیں ، ذہنی تربیت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعہ طلبامستقبل کے خطرات کا جوانمردی سے مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ ان کا ذہنی شعور ان کے مقاصد کوواضح کرتاہے ۔وہ علم رکھتے ہیں کہ انکی تعلیم وتربیت کے لئے ۲۰ سال قیمتی درکار ہونگے ۔ذہنی تربیت یافتہ بچے کسی کے زیر اثر نہیں رہتے وہ تعلیم سے شغف رکھتے ہیں ،وہ سکون و اطمنان سے ترقی کی جانب قدم بڑھاتے ہیں ۔

یہ سماج کی بدبختی ہے کہ تعلیمی ادارے بچوں میں علم کو پروان چڑھانے کے بجائے انہیں رینکر مشین بنا رہے ہیں ۔تعلیمی ادارے ، والدین اور ماہر ین تعلیم تعلیم کے ذریعہ ذہانت کو فروغ دینے کے فن سے تقریباًنابلد ہیں ۔ جس کی وجہ سے طلبا اپنی عملی زندگی میں ناکامی کا سامنا کررہے ہیں ۔ ایک طالب علم اپنے مضمون کے سوا دوسرے مضامین کا اگر بنیادی علم نہیں رکھتا تو وہ سماج میں مذاق کا موضوع بن جائیگا ۔ طلبا کی شخصیت سازی دبائو کے دوران تنظیمی صلاحیت تخلیقی صلاحیتو ں کے بحران پر قابو پانے کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے ترغیب کی اصل ضرورت ہوتی ہے ۔ تعلیم کا مقصد دنیا کا کم از کم بنیادی علم حاصل کرنا ہے ، طلبا (انسانوں ) کو علم، ذہانت کے خارج قسمت اور عقل سلیم کی بنیاد پر ماہرین نفسیات نے انسان کو عقل کی میزان پر مختلف درجے عطا کئے ہیں ۔ جس کے مطابق سماج میں ذہانت کے اعتبار سے مختلف درجے کے لوگ جداگانہ تناسب میں پائے جاتے ہیں ۔ جن میں فاترالعقل ۲ فیصد، بے وقوف ۷فیصد ، کند ذہن ۱۰ فیصد ، اوسط ۴۸فیصد ، اوسط سے اونچے ۱۸ فیصد ، دانشور ۱۱ فیصد اور نابغہ روزگار ۱۔۵فیصدپائے جاتے ہیں ۔ طالب علم خواہ وہ کسی درجہ سے تعلق رکھتا ہو آخر کار نابغہ روزگار بننے کی کوشش کرے اور حصول علم کا مقصد بھی یہی ہے اور اسی لئے ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔