لکھنئو: ارم ایجو کیشنل سوسائیٹی لکھنئو کے بانی و مینجر ڈاکٹر خواجہ سیّد محمد یونس کی رفیقئہ حیات اور آئیڈیل گرلس کالج اندرا نگر کی پرنسپل ڈاکٹر شہناز بانو کو آج ہزاروں سوگواروں کے درمیان نم آنکھوں سے اندرا نگر میں واقع امر پالی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔ واضح رہے کہ کئی کتابو ں کی مصنفہ اور تعلیم کے میدان میں حکومت اترپر دیش کی انعام یافتہ ڈاکٹر شہناز بانو کا گذشتہ رات شدیدقلبی دورہ پڑنے کے بعد ۶۲سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔ مرحومہ کو اس سے ایک مہینہ قبل بھی دل کا دروہ پڑنے کے بعد اسپتال میں داخل کرا دیا گیا تھا۔ کچھ راحت ملنے کے بعد ان کو ڈاکٹروں نے اسپتال سے گھر آنے کی اجازت دیدی تھی کہ اچانک گذشتہ شب پھر طبیعت ناساز ہوئی فوراََاسپتال لے جایا گیا مگر شاید اسپتال اور گھر کے درمیان ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔ رات سے ہی سوشل میڈ یا کے ذریعہ مرحومہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی ۔ اور ڈاکٹر خواجہ یونس کی رہائش گاہ پر دیکھتے دیکھتے سوگواروں کا ایک ہجوم لگ گیا۔

مرحومہ ڈاکٹر شہناز بانو کی نماز جنازہ دوبار ادا کی گئی پہلی نماز جنازہ بعد نماز ظہر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بعد نما ز ظہر مولانا رابع حسنی ندوی کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ جس میں ندوۃلعلماء کے ہزاروں طلبا ، اساتذہ اور معززین شہر نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی، دوسری نماز جنازہ اندرا نگر میں واقع باغ ارم میں ندوۃ العلماء کے مہتمم اور بزرگ عالم دین مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی کی امامت میں ادا کی گئی ۔ نماز جنازہ کے بعد مرحومہ کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں اندرا نگر میں واقع امر پالی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔

نماز جنازہ اور تدفین میں زندگی کے ہر شعبئہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی ، جس میں مولانا رابع حسنی ندوی ، مولانا واضح رشید حسنی ندوی، مولانا حمزہ حسنی ندوی، مولانا فرمان ندوی، مولانا عبداللہ مخدومی، مولانا فیضان نگرامی، ڈاکٹر مولانا محمد یوسف ندوی نگرامی، محمد حسن متین ،حمّاد انیس نگرامی، محمدعارف نگرامی ، ڈاکٹر طارق حسین ،عارف صدیقی، معروف خان ، پروفیسر وسیم اختر ،مسعود عالم جیلانی ، قاری اشتیاق احمد، بزرگ صحافی حفیظ نعمانی ، ہارون نعمانی، پرویز ملک زادہ ، محمد خالد، فضل عالم ایڈوکیٹ ، پروفیسر آصفہ زمانی، سابق ڈی، جی ،پی محمد رضوان احمد ،ارشد اعظمی ، ایچ ایم یاسین کے علاوہ بلال نورانی موجود تھے۔

مرحومہ ڈاکٹر شہناز بانو نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک مدرسّہ کی حیثیت سے اس وقت کیا تھا جب ڈاکٹر خواجہ یونس نے بارود خانہ میں ارم ماڈل اسکول کے نام سے ایک اسکول کھولا تھا ۔ اور ڈاکٹر شہناز اس چھوٹے سے اسکول میں ایک ٹیچر کی حیثیت سے اس محلہ کے بچوں کو تعلیم دیا کرتی تھیں۔ پھر سخت محنت ڈسپلن اور کچھ حاصل کرنے کی جستجو نے ان سے کئی کتابیں تصنیف کرائیں اور پھر وہ اندرا نگر میں واقع آئیڈیل گرلس کالج کی پرنسپل بن گیں ۔ ان کی تدریسی خدمات کو دیکھتے ہوئے اور اسکا اعتراف کرتے ہوئے گذشتہ سال حکومت اتر پردیش نے ڈاکٹر شہناز بانو کو بیسٹ ٹیچر کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ ایک اچھی ٹیچر با صلاحیت منظم اور معروف مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شہناز بانو ایک بہت ہی دین دار غریب پرور ، خوش اخلاق ملن سار اور صوم و صلوۃکی پابند نیک اور ہر دل عزیز خاتون تھیں ۔ ان کے انتقال سے نہ جانے کتنے گھر آج یتیم ہو گئے جن کی وہ کفالت کیا کرتی تھیں ۔ غریب لڑکیوں کی شادی میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ ہی نہیں بلکہ تن تنہا پوری ۔ پوری شادیاں کرادیا کرتی تھیں ۔ کتنے بے روزگار نوجوانوں کو برسر روزگار کرنے میں مالی امداد کی، اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے۔

پسماندگان میں شوہر ڈاکٹر خواجہ سیّد محمد یونس کے علاوہ چار بیٹے ڈاکٹر رزمی یونس، ڈاکٹر بزمی یونس ، انجینئر خواجہ فیضی یونس، انجیئنر خواجہ سیفی یونس شادی شدہ بیٹیاں ہیں ان کے سب سے بڑے داماد محمد احمد ،شہنشاہ اور تمام دامادوں کو بھی وہ اپنے لڑکوں کی ہی طرح مانتی تھی ۔