خاطیوںں کو سزاء ملے اس کے لیئے جمعیۃ علماء نے چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی

ممبئی : راجستھان کے راج سمند نامی علاقے میں مبینہ لو جہاد کے نام پر مسلم مزدور کو زندہ جلا دیئے جانے والے معاملے میں آج جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزارا عظمی نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام ایک خط ارسال کرکے چیف جسٹس دیپک مشراء سے گذارش کی ہیکہ وہ اس معاملے میں سو موٹو (از خود ) کارروائی کرتے ہوئے اس مقدمہ کو کسی دیگر ریاست میں منتقل کریں تاکہ عدالت کی کارروائی بغیر کسی رخنہ اندازی کے ہوسکے اور گواہوں پر ملزمین اور ان کے اہل خانہ دباؤ نہ بنا سکیں کیوں اس سے قبل پہلو خان کے قتل کے معاملے میں عدالت میں گواہان منحرف ہوگئے تھے جس کے بعد خاطیوںں کو سزا نہیں مل سکی۔

گلزار اعظمی نے اپنے دو صفحاتی خط میں چیف جسٹس سے درخواست کی ہیکہ ہجوم کے ذریعہ قتل اور محمد افرازول کو زندہ جلائے جانے والے واقعات پر قابو پانے کے لیئے خاطیوںں کو سخت سزائیں ملنی چاہئے لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہیکہ ملزمین کے دباؤ میں سرکاری گواہان عدالت میں دوران گواہی منحرف ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے عدالت بھی ملزمین کو سزائیں دینے میں ناکام ثابت ہورہی ہے اور یکے بعد دیگرے ایسے معاملات مسلمانوں کے ساتھ رونما ہورہے ہیں جس میں امن پسند طبقہ اور خصوصاً مسلمانوں میں ڈر کا ماحول ہے ۔
گلزار اعظمی نے اپنے خط میں تحریر کیا ہیکہ وہ پولس اور انتظامیہ کی بروقت کارروائی کی ستائش کرتے ہیں کہ انہوں نے محمد افرازول کو زندہ جلانے والے شمبھو لال ریگر کو گرفتار کرلیا اور اور معاملے کی تحقیقات شروع کردی لیکن ملزم کو اسی وقت سزاء مل پائے گی جب بغیر کسی باہری دباؤ کے عدالت اپنا کام انجام دے پائے گی جس کے لیئے سرکاری گواہوں کی گواہیاں بہت معنی رکھتی ہیں ۔

گلزار اعظمی نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ بھیڑ کے ذریعہ قتل کیئے گئے پہلو خان کے مقدمہ میں سرکاری گواہان عدالت میں منحرف ہوگئے تھے جس کی وجہ ان پر غیر ضروری باہری دباؤ تھا لہذا افرازول کے مقد مہ کو کسی دوسری ریاست میں منتقل کردیا جائے اور عدالت کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ اس معاملے کو دیگر معاملات پر سبقت دیتے ہوئے جلد از جلد اس کی سماعت مکمل کرے نیز معاملے کی تفتیش سپریم کورٹ کی زیر نگرانی کیئے جانے کی بھی گذارش کی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں راجستھان کے راج سمند نامی علاقے میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم شخص افرازول کو بھگواء جماعتوں سے تعلق رکھنے والے شمبھو لال نے اس لیئے زندہ جلا دیا تھا کہ اس کو شک تھا کہ وہ لو جہاد کررہا تھا اور اس کے کسی غیر مسلم خاتون سے تعلقات تھے جبکہ حقیقت یہ ہیکہ افراوزل ایک مزدور تھا اور اس کا لو جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ افرزاول کو زندہ جلانے کی ویڈویو ریکارڈنگ بھی تیار کی تھی جسے بعد میں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا گیا جس کے بعد چہار جانب ہنگامہ برپا ہوا اور ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی ۔