برلن میں سر سید احمد خاں کے ۲۰۰ ویں یوم پیدائش کی یورپ میں پہلی تقریب

برلن : ستمبر کو جرمنی کی راجدھانی برلن میں سر سید احمد خان کی یاد میں شاندار تقریب منائی گئی، جس میں مولانا آزاد یونیورسٹی لکھنئو کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عشرت ناہید نے اعزازی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔ دیگر مہمانوں میں محترم خالد حمیدفاروقی، جو بلجیم کی راجدھانی بروسیلس میں یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے ہیں ،نیز ٹی وی چینل جیو کے بیورو انچارج ہیں اور فرانکفورٹ سے آن لائن عالمی افسانہ فورم کے اڈمِن جناب وحید احمد قمر مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہء اردو کے استاد اور حذب الاخلاق کے مدیرپروفیسر صغیر افراہیم اپنی اہلیہ کی اچانک علالت کے باعث شرکت نہ کر سکے، جبکہ میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری کو وقت پر ویزا نہ مل سکا۔ لیکن ان کا پیغام بروقت پہنچ گیا تھا۔

پروفیسر صغیر افراہیم نے جلسہ کے دوران ٹیلیفون سے اپنا تہنیتی پیغام دیا ، جس کا حاضرین نے زوردارتالیوں
سے استقبال کیا۔ جلسے میں ساز سنگیت کا پروگرام بھی پیش کیا گیا اور کئی نئی کتابوںکا تعارف کرایا گیا۔ نیزمیمنٹو اور ایوارڈ سے بعض لوگوں کی اردو کے لئے خدمات کو سراہا گیا۔ آخر میں مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ اس کے بعد بیرونی مہمانوں کےاعزاز میں اردو انجمن کی طرف سے ایک عشائیہ دیا گیا۔

یوم سرسید کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں شرکت کے لئے صرف اردو داں ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں،
ہندی، پنجابی، بنگالی دانشور وں کے ساتھ مختلف شعبوں کے جرمن اور دیگر زبانوں کے لوگ بھی موجودتھے، جو سرسید کی خدمات کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔

سب سے پہلے اردو انجمن کے نائب صدر محترم انور ظہیر اور محترمہ جاریہ نے اردو اور جرمن زبان میںنظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیا اور اردو انجمن کے صدر جناب عارف نقوی کو جو برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں اردو کے استاد رہ چکے ہیں استقبالیہ خطبے کے لئے اسٹیج پر دعوت دی۔

عارف نقوی نے ڈاکٹر عشرت ناہید، محتر م خالد حمید فاروقی اور محترم وحید احمد قمر اور دیگر مہمانو کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتایا کہ سرسید ایک بڑے اردو اسکالر، عظیم دانشور، ریفارمر، فلسفی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی تھے، جنہوں نے۱۸۵۷ء کے انقلاب کی ناکامی اور شکست کے بعد ہندوستان کی ساری شکست خوردہ قوم، خصوصاًپست ہمت مسلمانوںکو جگایا اور تعلیم سے فائدہ حاصل کرکے اور جدید مغربی سائنس اور ٹکنا لوجی سے فائدہ اٹھا کر دیگر قوموں کے ساتھ باوقارشانے سے شانہ ملاکر چلنے کا راستہ دکھایا۔ عارف نقوی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ برلن میں ۵۵ برسوں سے اردو کے فروغ کے لئے خاص طور سے کام ہو رہا ہے۔
جلسے میں سرسید احمد خاں کی زندگی اور خدمات پر تیار کی گئیانور ظہیر کی ایک خوبصورت دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ جس میں سرسیدکے دور کی زبوں حالت اور اس سے چھٹکارا دلانے کے لئے ان کی تعلیمات اور خدمات کے بارے میں بتایا گیا اوراہم لوگوںکی رائیں پیش کی گئی ہیں۔

اس کے بعد محترم عارف نقوی کو جلسے کی صدارت اور محترمہ ڈاکٹرعشرت ناہید، محترم خالد حمید فاروقی اورمحترم وحید قمر کو پریسیڈیم میں بیٹھنے کی دعوت دی گئی۔ بنگالی گلو کار محترم دھیرج رائے نے اپنی خوبصورت آواز میں ہارمونیم پر اردو گیت پیش کئے۔

محترمہ عشرت ناہید نے اپنے طویل مقالے میں بتایا، کہ سرسید ایک ہمہ جہت شخصیت ، ایک صاحب طرز ادیب،
بے باک صحافی، بلند پایہ مفسر، ماہر تعلیم، مفکر عظیم تھے۔ جہد مسلسل جن کا شعار، عزم محکم جن کی مشعل اور ان سب سے بڑھ کر ملک و قوم کے سچّے مسیحا تھے۔

سرسید ہندوستان کی نشاۃ الثانیہ کے ایسے علمبر دار ہیں کہ رہتی دنیا تک ملک و قوم ان پر فخر کرتی رہے گی۔
انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ وطن اور اہل وطن کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ملک کو اور خاص طور سے مسلمانوں کو وقت کے تقاضے کے مطابق زمانے کی رفتا کے ساتھ چلانے کے لئے انتھک کو ششیں اور کاوشیں کیں۔انہوں نےمرضِ زوال کے اسباب ڈھونڈھ کر ان کا سد باب کرنے کا تہیہ کیا۔ انہوں نے جو علاج تجویز کیا وہ میدان تعلیم میں سرخروئی حاصل کرنا تھا۔انہوں نے نظام تعلیم میں تبدیلیاں کر نئے نصاب کو نافذ کیا، رسالے نکالے، انجمنوں اور سوسائٹیوں کا قیام عمل میں لائے،کتابیں لکھیں، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا۔ مغربی علوم و فنون کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی غرض سے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔اور ان سب سے بڑھ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی، جو ان کا سب سے بڑا کارنامہ رہا۔

عشرت ناہید نے مولانا حالی کی لکھی سرسید کی سوانح عمری ’’حیات جاوید‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کےخوابوں کا بھی ذکر کیا ، جنہوں نے ان کی زندگی اور ان کے بعض فیصلوں پر اثر کیا ہے۔ محترمہ عشرت ناہید کے بعدبروسیلس سے آئے محترم خالد حمید فاروقی نے سرسید کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور کہا کہ سرسید کا سب سے اہم کارنامہ اردو زبان اور ادب کو فروغ دینا ہے۔

فرانکفورٹ سے آئے ہوئے محترم حمید قمر نے بھی سرسید کی خدمات اور مسلمانوں کو علم کے میدان میں آگے آنےاور مغربی ٹکنالوجی اور فنون سے مستفید کرانے کے لئے رول پر زور دیا۔علیگڑھ سے پروفیسر صغیر افراہیم نے ٹیلیفون سے اپنا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ سب کو، جرمن عوام کواور سرسید کے فدائیوں کو اتنا اہم سیمینار کرنے اور سر سید کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔‘‘ انہوںنے بتایاکہ ’’حال میں Times Higher Education نے ساری دنیا کی ایک ہزار یونیورسٹیوں کی فہرست شائع کی ہے، جس میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان میں پہلے مقام پر ہے۔‘‘

میرٹھ سے پروفیسر اسلم جمشید پوری نے جو پیغام بھیجا اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ سرسید کا شمار ایسے پیغامبروں
میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنا نظریہ پیش کیا بلکہ اس کی اشاعت کے لئے باضابطہ عملی اقدام بھی کیا۔‘‘
’’ مسلمان ہی نہیںپورے ہندوستان اور ہندوستان ہی نہیں عالم انسانیت کی ہزاروں سال کی بے نوری نے سرسید جیسا دیدہ ور پیدا کیاہے، جس نے اپنے قول و فعل سے عالم انسانیت کی بقا اور انسان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے
کے لئے انقلاب آفریں اقدام کئے۔ ان کا مشن علم کا چراغ روشن کرنا، انسانیت کو تہذیب کی روشنی سے منور کرنا اور قرآن کے ساتھ ساتھ جدید ٹکنا لوجی سے نسل کو آراستہ کرنا تھا۔‘‘

جلسے میںجناب عارف نقوی کی کتاب ’راہ الفت میں گامزن‘ کی رسم اجراء اور اسکے بعد پروفیسر شمیم نکہت کی
کتاب’تاثر و تنقید‘ ، ڈاکٹر عشرت ناہید کی ’حیات اللہ انصاری‘ اور ڈاکٹر عشرت معین سیما کے شعری مجموعے’جنگل میں قندیل‘ سے روشناس کرایا گیا۔

اردو انجمن کے ایک دیرینہ رفیق ظہور احمد صاحب کو انجمن کی طرف سے ایوارڈ پیش کرتے ہوئے صدر جلسہ
عارف نقوی نے ان کی خدمات کی تعریف کی اور بتایا کہ ظہور صاحب نے اردو کے فروغ میں ہمیشہ انجمن کی مدد کی ہے۔ مہمان اعزازی ڈاکٹر عشرت ناہید کو بھی اردو کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف میں میمنٹو اور ایوارڈ دیا گیا۔

بروسلس سے آئے مہمان جناب خالدحمید فاروقی کو بھی اعزازی سرٹیفیکٹ اور فرانکفورٹ کے جناب وحید قمر کو پھول پیش کئے گئے۔پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد دوسرے دور میں مشاعرے کا آغاز ہوا جس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر عشرت معین سیما نے ادا کئے۔ مشاعرے میں عارف نقوی، علی حیدر وفا، عشرت معین سیما،انور ظہیر، سرور ظہیر، امرین سلیم اور ارشاد خاں کے ساتھ ہندی کی شاعرہ سوشیلا شرما اور پنجابی کی پرم جیت کو ر کو خاص طور سے پسند کیا گیا۔دوسرے دن ۱۸؍ ستمبر کو ’اماں اماں ‘ نامی ایک ریستوراں میں اردو انجمن کی طرف سے ایک مخصوص نشست کی گئی جس میں افسانہ نگار وحید قمر (فرانکفورٹ)، عارف نقوی(برلن)، ڈاکٹر عشرت ناہید (لکھنئو) سرور ظہیر (برلن) اور عشرت معین سیما (برلن)نے اپنے افسانے سنائے۔