اردو انجمن کی تقریب میں جوش خروش سے شرکت

رپورٹ: عارف نقوی

برلن: ۱۷؍ ستمبر کا دن جب ہم نے سر سید کے ۲۰۰ سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں یوم سرسید کے لئے منتخب
کیا، تو ہمارے بہت سے دوستوں نے اس کی کامیابی پر شک و شبہ کا اظہار کیا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک ہفتے کے بعد ۲۴؍ ستمبر کو جرمنی میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور لوگوں کا دھیان ان میں لگا ہوا ہے۔لیکن ہم اس سے قبل کوئی بڑا جلسہ اس لئے نہیں کر سکتے تھے کہ یہا ںگرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور بعد میں محرم شروع ہوجائے گا۔

اکتوبر میں برصغیر میں سر سید کی ۲۰۰ ویں سالگرہ کے اعزاز میں پروگراموں کی دھوم رہے گی اور ہم وہاں سے کسی مہمان کو نہیں بلا پائیں گے۔ پھر سوال یہ بھی تھا کہ کیا واقعی سرسید کے نام، ان کی شخصیت اور کارناموں میں برصغیر سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو دلچسپی ہے؟ اتوار کو برلن کے علاقے شوئنے برگ میں ’محل‘ نامی ایک عمارت میں، جہاں چار بجے سے جلسہ شروع ہونے والا تھا،سناٹاچھایا ہوا تھا۔ صرف چند لوگ نظر آرہے تھے۔ میرے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ لیکن پھر چار پانچ لوگ ہال میںداخل ہوئے اور بڑھتے چلے گئے۔ ہال بھر گیا۔ان میں صرف اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہی نہیں، بلکہ بڑی تعداد میں ہندی، پنجابی، فارسی اورجرمن زبان کے دانشور اور دیگر لوگ بھی تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ
یہ کونسی شخصیت ہے جس نے ۱۸۵۷ء میں آزادی کی جنگ کو ہارنے کے بعد شکست خوردہ، پست ہمت، ہراساں اور مستقبل سے مایوس ہندوستانیوں، خصوصاً مسلمانوں کو نجات کا راستہ دکھایا تھا اور ان میںذہنی اور تعلیمی انقلاب کی مشعل روشن کی تھی، تعلیمی ادارے، سوسائٹیاںاور یہاں تک کہ دیگر کارناموں کے ساتھ ایک مسلم یونیورسٹی علیگڑھ قائم کی تھی، جوآج ہندوستان میں سر اول ہے۔

ہماری تقریب میںپاکستان سے پروفیسر سحر انصاری،الہ آباد سے پروفیسرعلی احمد فاطمی،دہلی سے ڈاکٹر خالد علوی آنے والے تھے، جو یہاں پہلے بھی آچکے ہیں، لیکن اس بار بعض مجبوریوں کی وجہ سے نہ آسکے۔علیگڑھ سے پروفیسر صغیر افراہیم یہاں آنے کے لئے تیاریاں مکمل کر چکے تھے، لیکن عین وقت پر ان کی اہلیہ سخت علیل ہو گئیں اور میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو کے صدر اسلم جمشید پوری کو آخر وقت میں ویزا نہ مل سکا۔ ان حالات میں میں اور میرے ساتھی عجب شش و پنج میں مبتلا تھے۔ لیکن اردو انجمن برلن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعلی نے ایسے موقعوں پر ہمیشہ مدد کی ہے اور ہمارے ذرائع کم ہوتے ہوئے بھی ہمارے جلسے کامیاب ہوئے ہیں۔چنانچہ اس بار یوم سرسید میں شرکت کے لئے دوسرے مہمانوں کے ساتھ لکھنئو سے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کی ڈاکٹر عشرت ناہید، بروسیلس سے یونیورسٹی کے استاد اور جیو ٹی وی کے بیورو
انچارج خالد حمید فاروقی، فرانکفورٹ سے آن لائن عالمی افسانہ فورم کے اڈمن وحید قمر مہمان خصوسی کی حیثیت سے تشریف لائے۔ اور وہ بھی دھوم کے ساتھ کہ آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہی۔

یوم سرسید کے جلسے میں جس کی صدارت اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے کی اور نائب صدر انور ظہیر اورمحترمہ جارئیہ نے نظامت کے فرائض ادا کئے، سرسید کیحیات وخدمات کے بارے میں ایک مختصر دستاویزی فلم دکھائی گئی اوراور ایک بنگالی گلوکار نے اردو گانوں سے انھیں خراج عقیدت پیش کی۔عارف نقوی کے صدارتی الفاظ کے بعد محترمہ ڈاکٹر عشرت ناہید، محترم خالد حمید فاروقی اور محترم وحید قمر نے سرسیدکی شخصیت، ان کے کارناموں اور خدمات کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی اور ایک عظیم عالم، دانشور، ریفارمر، فلسفی اورقوم کو تعلیم سے منور کرنے والی شخصیت بتایا ۔ان کے خوابوں کا بھی ذکر کیاگیا اور سرسید کے بارے میں بعض لوگوں کے جو اعتراضات ہیں ان کا تجزیہ کیا گیا۔ جس کی تفصیل پچھلی رپورٹ میں دی جا چکی ہے۔
جلسے کا ایک دوسرا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ چند کتابوں کا تعارف کرایا گیا۔ سب سے پہلے عارف نقوی کی کتاب
’راہ الفت میں گامزن‘ جو اسی سال اپریل میں ہندوستان میں شائع ہوئی ہے اس کی برلن میں ڈاکٹر عشرت ناہید کے
ہاتھوں باقاعدہ رسم اجرا کی گئی۔ ان کی ہم نام عشرت معین سیما نے عارف نقوی کی کتاب پر ایک مقالہ پیش کیا، جس میں انہوں نے دیگر باتوں کے ساتھ کہا:

’’عارف نقوی صاحب جرمنی میں اردو کے سفیر ہیں۔ کیونکہ جرمنی میں جب بھی اردو زبان کی ترویج و فروغ
کا ذکر ہوگا وہاں عارف نقوی صاحب کا نام نہایت احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔عارف نقوی صاحب کی شخصیت
جرمنی میں اردو ادب کے حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ ایک افسانہ نگار، شاعر، صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اردو، ہندی زبان کے ایک استاد کی حیثیت سے بھی جرمنی میں گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ وہ ہندوستان میں بھی ترقی پسند تحریک کے روح رواں سجاد ظہیر کے ساتھ اپنے قلم کی روشنائی بکھیرتے ہوئےان کی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔۔۔ان کے سفرنامے کا اسلوب بیشتر جگہوں پر ایک داستانی ماحول کو پیش کرتا ہے۔۔۔

انہوں نے گذشتہ پچاس برس کے عرصے میں ہونے والی سماجی، معاشرتی تبدیلی اور سفری مقاصد کا احاطہ بہت
خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ خوبصورتی اس قدر محصور کن ہے کہ اس کتاب کا قاری اکثر مقام پہ خود کو قاری تصور کرنے کے بجائے عارف نقوی کا ہمسفر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ مسافر ان کے ساتھ ساتھ نہ صرف اردو کی الفت میں گامزن ملکوں کی سیر کرتا ہے، بلکہ زندگی کے کئی ادوار اور تاریخ کے کئی اہم باب کے در بھی کھولتا چلاجاتا ہے۔ عارف نقوی کی سوچ اور ان کا عمل اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے کتنا متحرک رہا ہے، راہ الفت میں گامزن اس بات کا ایک تحریری ثبوت ہے۔‘‘

ڈاکٹر عشرت معین سیما نے دیگر باتوں کے ساتھ آخر میں اپنے مقالے میں کہا

’’جرمنی میں اردو کی ترویج و ترقی کے لئے عارف نقوی کا نام تاریخ میں رقم ہو چکا ہے۔ انہیں یوروپین رائٹرس
یونین برطانیہ کی طرف سے ’بابائے اردو جرمنی‘ کا لقب ملا ہے اور اس کے علاوہ بے شمار انعامات و اعزازات انکو جرمنی میں ادب، کھیل، سماجی خدمت اور رفاہی کاموں کی ترویج و ترغیب کے حوالے سے ملے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں عارف نقوی صاحب کا ساتھ اور ان کی راہ نمائی جرمنی میں ملی ہے۔ کیونکہ عارف نقوی کی شخصیت اور ان کے کاموں کا سلسلہ کسی مکتبہ فکر و عمل سے کم نہیں۔‘‘

عشرت معین سیما شاید تکلف یا مروت میں میری کچھ زیادہ ہی تعریف کر گئی تھیں، حالانکہ اپنی تعریف کسے پسند نہیں ہوتی۔ لیکن مجھے اس سے زیادہ خوشی تب ہو ئی جب میں نے پروفیسر شمیم نکہت سے متعلق ایک خوبصورت کتاب کو کھولا۔ ’’تاثرات و تنقید‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ریشماں پروین۔ جس میں میری اور میری بیٹی نرگس کی تحریر بھی ہے۔ شمیم نکہت کیونکہ لکھنئو یونیورسٹی میں میری کلاس فیلو رہ چکی ہیں اور میں نے ان کی مختلف منزلوں کو دیکھا ہے۔ وہ اورشارب ردولوی یونیورسٹی میں اور اس کے بعد بھی میرے بہترین دوست رہے ہیں۔ شمیم نے پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی۔ دلی یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسر بنیں، شارب ردولوی سے رشتہء ازدواج میں جڑیں، اردوکے فروغ میں ان کے ساتھ قدم بقدم جدوجہد میں حصہّ لیا۔بہترین افسانے، خاکے اور مضامین لکھے، ایک خوبصورت بیٹی شعاع فاطمہ کی ماں بنیں، اس کا داغ مفارقت برداشت کیا اور اس کے نام سے لکھنئو آکر غریب بچّوں کے لئے اسکول قائم کیا اور علم کی شعاعوں سے غریب کٹیائوں کو بھی منور کر دیا۔جس کے احترام میں انھیں لاتعداد اعزاز بخشے گئے۔

ایک میں تو میں بھی شریک تھا جب خود اتر پردیش کے گورنر شری رام نائک جی نے انھیں اعزاز بخشا تھا۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر وہ محبت تھی جو میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں اور ان کے غریب والدین میں شمیم نکہت کے لئے دیکھی تھی۔جن کے گھروں میں آج شعاعیں پہنچ رہی ہیں۔جب میں نے شمیم نکہت کے بارے میں بتایا تو پورا ہال، جہاں لوگ سرسید کی خدمات کے بارے میں جاننے کے لئے آئے تھے، خاص طور سے لوگوں کو علم سے روشناس کرانے کے لئے ان کے مشن کے بارے میں، وہ شمیم نکہت کے احترام میں بھی تالیوں سے گونج اٹھا۔اس کے بعد تالیوں کی گونج میں ڈاکٹر عشرت ناہید کی کتاب کی رونمائی میرے ہاتھوں کی گئی۔کتاب کا عنوان ہے:

’حیات اللہ انصاری۔شخصیت اور ادبی کارنامے‘۔ مجھے ان کی کتاب دیکھ کر روحانی خوشی ہوئی، اس لئے ہی نہیں
کہ یہ میری ہم وطن ناہید صاحبہ نے لکھی ہے بلکہ ایک ایسی اہم شخصیت کے بارے میں لکھی ہے جس کی میں بہت قدر کرتا ہوں۔ میں حیات اللہانصاری اور ان کی اہلیہ سے ذاتی طور سے اچھی طرح واقف تھا۔ دیکھنے میں وہ دونوں نہایت ہی سیدھے سادے، محبت اور خلوص سے بھر پور، شرافت کا مجسمہ تھے۔ وہ اردو کی بقا اور فروغ کے لئے بہت اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ جس وقت بہت سے اردو کے ادیب مایوسی کا اظہار کر رہے تھے۔ حیات اللہ انصاری اور ان کی بیگم اردو کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ حیات صاحب بہت ہی اچھے افسانہ نگار بھی تھے اور ان کےمقالے بے مثال تھے۔ روزنامہ قومی آواز لکھنئو، جس کے وہ چیف ایڈیٹر تھے، اس میں ان کے اداریے ہم نوجوانوں ہی نہیں، بلکہ بہت سے لوگو ں کی رہنمائی کے لائق تھے۔وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔ غرضیکہ ہزاروں خوبیوں کے مالک تھے۔، مجھے وہ دن بھی یاد آگیا جب وہ لکھنئو میں آل انڈیا ہندی اردو سنگم کے ایک جلسے میں میری ایک کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر بھی بولنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ وہ ہمیشہ نوجوانوں کی سرپرستی کرتے تھے۔بہت سے لوگ اس بات کو بھول گئے ہوں گے کہ حیات اللہ انصاری مغربی برلن اور مشرقی برلن میں بھی آچکے ہیں۔ بہر حال عشرت ناہید صاحبہ قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے اس اہم شخصیت کی زندگی کو کتاب میں سمو دیا ہے، تاکہ آنے والی نسلیں مستفید ہوتی رہیں۔

اس کے بعد محترم خالد حمید فاروقی کے ہاتھوں ڈاکٹر عشرت معین سیما کے شعری مجموعے ’جنگل میں
قندیل‘ کا تعارف کرایا گیا۔ سیما ہماری اردو انجمن برلن کی ایک اہم سرگرم کارکن ہیں۔اور ہمارے مشاعروں کی
خوبصورت نظامت کرتی ہیں۔ان کی غزلیں اور نظمیں نہایت سادی، نفیس زبان میں میں ہوتی ہیں، جن میں انسانی
درد ومحبت، پرخلوص جذبات، کردار نگاری اور منظرکشی قابل تعریف ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں دلوں کو چھوتی ہیں۔ ان کی نظموں میں ان کے معاشرے کی جھلک، ملک و قوم کی حالت اپنوں اور غیروں کا درد، تڑپ سبھی کچھ ملتا ہے،جس کے بارے میں میں پہلے بھی تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ بہر حال اس وقت اس کتاب کو دیکھ کر مجھے اور بھی خوشی ہوئی۔ کتابوں کے تعارف کے بعد ہم نے محترم ظہور احمد صاحب کو، جو ایک انٹرنیٹ اخبار بھی چلاتے ہیں اورہمارے جلسوں میں مدد گار رہتے ہیں اور ایک اچھے فوٹوگرافر بھی ہیں۔ ان کو فخر اردو انجمن کے اعزاز سے نوزا۔

جلسے میں ڈاکٹر عشرت ناہید کو بھی اردو انجمن کی طرف سے ایک میمنٹو اور اردو انجمن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بروسلس سے آئے محترم خالد حمید فاروقی کو بھی ان کی خدمات کے لئے سرٹیفیکٹ دیا گیا اور فرانکفورٹ کےوحید قمر صاحب کو گلدستہ پیش کیا گیا۔چائے کے وقفے کے بعد مشاعرے کا دور چلا اور دوسرے دن ایک ریستوراںمیں افسانے کی خصوصی نشست کی گئی۔ اس کی تفصیل اگلی رپورٹ میں پیش کی جائے گی۔