مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی

اس کائنات میں حضرت انسان کو ملنے والی سب سے بڑی نعمت اس کی جان اور زندگی ہے۔ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ مشہور کہاوت ہے جو بالکل بجا ہے۔ جان کے بغیر کچھ نہیں۔ اسی زندگی کی بدولت انسان دنیا و آخرت کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ دنیا کی سربلندی اور آخرت کی سر فرازی سب کچھ جاں اور زندگی کی مرہونِ منت ہے۔ زندگی نہ ہو تو آدمی دنیا میں کسی اونچے مقام تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور نہ آخرت کے اعزاز سے سر خروہوسکتا ہے۔

دیگر نعمتوں کی طرح زندگی کی نعمت بھی انسان کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ انسان اپنی جان کا خود مالک نہیں ہے ۔ اس لئے کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ خودکشی کرکے اپنی زندگی ختم کرلے۔ اسلام میں خودکشی بدترین گناہ ہے۔ خودکشی کرنے والا خدا و رسول کی پھٹکار کا مستحق ہے۔ قرآن و سنت میں ایسے شخص کے لئے ابدی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ اگرچہ علماء نے اسے تھدید پر محمول کیا ہے لیکن خودکشی کی سنگینی سے انکار ممکن نہیں۔ خودکشی موجودہ دور میں ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ یہ تہذیب حاضر کا تحفہ ہے جسے انسانیت نے گلے لگایا ہے۔ دنیا بھر میں ہر ۴۰ ؍سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کرکے اپنی جان ختم کر لیتا ہے۔ خودکشی میں سویڈن سر فہرست ہے۔ مغربی ممالک جہاں اسباب معیشت کی فراوانی اور معاشی خوشحالی ہے، سب سے زیادہ اس لعنت کا شکار ہیں۔ مغربی ممالک میں خودکشی کی وجہ روحانی خلا اور قلبی سکون سے محرومی ہے۔ مغرب کے بے خدا تمدن نے اہل مغرب کو زندگی کے حقیقی سکون سے محروم کردیا ہے۔ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ جیسی بیماریاں مغرب میں عام ہیں۔ مشرقی ملکوں میں خودکشی کے متعدد اسباب ہیں ۔ گھریلو جھگڑے، گھوڑے جوڑے کی لعنت ، غربت و بے روزگاری ، تعلیمی میدان میں ناکامی اور مختلف نفسیاتی مسائل خودکشی کا سبب بنتے ہیں۔ خودکشی کا سہارا بالعموم نوجوان اور بڑی عمر کے لوگ لیتے ہیں۔ بچوں میں خودکشی کے واقعات کا تصور ہی نہ تھا لیکن حالیہ عرصہ میں بچوں اور نو خیز لڑکوں اور لڑکیوں میں خودکشی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پیش آئے چند واقعات ملاحظہ فرمائیے :

کیرالا کے ایک سولہ سالہ لڑکے نے خودکشی کرلی۔ اس نے اپنے والدین کو خبر کردی تھی کہ اگر وہ مرجائے تو پریشان نہ ہوں۔ اس واقعہ پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ممبئی میں ایک ۱۲ سالہ لڑکے نے ہمہ منزلہ عمارت کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔ مغربی بنگال میں گزشتہ ماہ تازہ واقعہ پیش آیا۔ جہاں ایک پندرہ سالہ لڑکے نے گھر کے باتھ روم میں منہ پر پلاسٹک بیگ لپٹ کر خودکشی کی ۔ مدھیہ پردیش میں ساتویں جماعت کے ایک کمسن بچے نے اپنے اسکول کی تیسری منزل سے کود کر خودکشی کرنے کی کوشش کی جسے ساتھی طلباء نے پکڑ لیا۔ شولاپور کا ایک لڑکا خودکشی کرنے کے لئے پونہ بھاگا جسے پولیس نے اس اقدام سے بچالیا۔ ۳۰ ؍جولائی کو ایک چودہ سالہ اسکولی لڑکا من پریت سنگھ ساہنی اندھیری ایسٹ کی شیر پنجاب کالونی میں عمارت کی پانچویں منزل سے چھلانگ لگادی۔ منی پور کے ایک سابق وزیر کا لڑکا دہلی میں چھت سے گر پڑا جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔

آپ کو پتہ ہے کہ کمسن بچوں کی جانب سے پیش آئے خودکشی کے ان واقعات کے پیچھے کیا چیز کار فرما ہے؟ یہ سارے واقعات دراصل سوشیل میڈیا پر عام ہونے والے بلو وہیل گیم کا شاخسانہ ہیں جس میں بچے اس وقت حد سے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی کھیل ہے جو کھیلنے والوں کو پچاس دن کے لئے خود کو اذیت دینے کے ٹاسک دیتا ہے ا س کا انجام جو جیتنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کھیلنے والے کی موت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ہر ٹاسک کی فلم بنانی ہوتی ہے اور ثبوت کے طورپر شیئر کرنا ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ کھیل دنیا بھر میں تاحال ۱۳۰ سے زائد لڑکے اور لڑکیوں کی جان لے چکا ہے ۔ ماہرین کے مطابق کمسن لڑکے لڑکیاں آسانی سے اس کا شکار اس لئے ہوتے ہیں کہ اس گیم کی خیالی دنیا انہیں وہ آزادی دیتی ہے جو حقیقی دنیا میں بندشوں کے تابع ہوتی ہے۔ یہ جان لیوا کھیل ساری دنیا میں تباہی مچارہا ہے۔ سائبریا میں گزشتہ دنوں دو سہلیوں ۱۵ سالہ یولیا اور سولہ سالہ ویرو نیکانے گھر کی چھت پر خودکشی کرلی۔ بعد ازاں اسی شہر کی ۱۵؍ سالہ اکیترینا برف سے ڈھکی زمین پر زخمی حالت میں پائی گئی۔ کہاگیا ہے کہ اکیترینا نے بھی اپنے گھر کی چھت سے کود کر خودکشی کی کوشش کی تھی۔ تاہم زمین پر برف کے باعث اس کی جان بچ گئی۔ جیولیا نے خودکشی سے قبل اپنے فیس بک صفحہ پر ایک بہت بڑی نیلی وہیل مچھلی کی تصویر کے ساتھ ’’ختم شد‘‘ پوسٹ کیا تھا جبکہ اس کی سہیلی ویرو نیکا نے بھی ’’احساس مرچکا۔۔۔ ختم شد‘‘ لکھ کر پوسٹ کیا تھا۔ سوشیل میڈیا پر اس کھیل سے وابستہ ایک لڑکی نے جسے پولیس نے گرفتار کیا ، بتایا کہ انہیں سوشیل میڈیا گروپ کے ایڈ منز کی جانب سے مختلف کام بتائے جاتے ہیں۔ لڑکی نے بتایا کہ اسے چھری کی مدد سے اپنے بازو پر چند حروف کنندہ کرنے اور اس کے بعد قریب ترین اونچی عمارت سے کودنے کی ترغیب دی گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ خوف کے سبب یہ کام نہ کرسکی۔ تاہم خدشہ ہیکہ دیگر کئی لڑکیاں یہ سب کر گزری ہیں۔ ایک اور واقعہ میں پولیس نے دو ایسے لڑکوں کو گرفتار کیا تھا جو خودکشی کرنے جارہی لڑکیوں کی منظر کشی کی کوشش کررہے تھے۔ ہبلی اور کاروار سے شائع ہونے والے ایک آن لائن کنٹر اخبار کے مطابق ہبلی کی ایک لڑکی بلو وہیل گیم کا شکار ہوگئی اور پھر اپنے ہاتھ میں چھری کی مدد سے حون نکال کر نشان بنایا۔ چھٹی جماعت کی اس طالبہ کا تعلق راجہ نگر کیندریا ودیا لیہ سے ہے۔
ا
اس جان لیوا گیم کا پورا نام بلو ہیل چیلنج (Blu Whale Challenge) ہے۔ اس کے علاوہ اسے ائے سائیلنٹ ہاؤس (A Silent House) ، اے سی آف وہیلس (A Sea of Whales) اور ویک می اپ ایٹ (Wake Me Up At) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گیم روسی سوشیل نیٹ ورکنگ سائٹ کے ذریعہ کھیلا جاتا ہے۔ کھیلنے والے اسے دوسری نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی شیئر کرتے ہیں۔ اس گیم کو Phillipp Budeikin نامی روسی شہری نے بنایا ہے۔ یہ شخص نفسیات کا طالب علم تھا۔ کسی وجہ سے اسے یونیورسٹی سے نکال دیاگیا تھا۔ اس گیم کے نتیجہ میں جب روس میں خودکشی واقعات بڑھنے لگے تو اسے گرفتار کیاگیا تھا ۔ اس نے کم از کم۱۶ نوجوان لڑکیوں کو اس گیم کے ذریعہ خودکشی پر اکسانے کا اقرار کیا تھا ۔ گیم بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ وہ سو سائٹی کو ایسے لوگوں سے صاف کرنا چاہتا ہے جن کی کوئی ویلیو نہیں۔ اس کے مطابق ایسے لوگ بے وقت اور حیاتیاتی کوڑا ہیں جن سے انسانی معاشرہ صاف ہونا چاہئے۔ روس میں اس گیم کی وجہ سے تاحال ۱۳۰ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خودکشی کرچکی ہیں۔ اس گیم میں کھیلنے والاراست انٹرنیٹ سے کھیل ایڈمن سے جڑتا ہے۔ کھیل کے لئے لازمی شرط یہ ہوتی ہے کہ کھیلنے والا ایڈمن کے ذریعہ دی جانے والی ہدایات پر ہو بہو عمل کرے اور اس کے فوٹویا ویڈیو بطور ثبوت بھیجنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس سے سرتابی کی صورت میں اسے اور اس کے گھر والوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ کھیلنے والا گویا چیلنج قبول کرتا ہے۔ کھیلنے والے کو دی جانے والی ہدایات ابتداء میں آسان ہوتی ہیں جیسے کوئی خاص قسم کی موسیقی جو ایڈمن کے ذریعہ بھیجی جاتی ہے اسے سننے یا ڈراؤنے ویڈیو کلپ دیکھنے کا حکم ہوتا ہے۔ پھر بتدریج ہدایات پر خطر و پر آشوب ہوتی جاتی ہیں۔ مثلاً کسی اونچی چھت کے کنارے کھڑے رہنے یا نیچے پیر لٹکاکر بیٹھنے یا کسی پل کے کنارے کھڑے رہنے رات کے وقت قبرستان جانے یا علی الصبح اٹھ کر ریلوے ٹریک پر جانے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔ اس مرحلہ کی کامیابی کے بعد اصل گیم شروع ہوتی ہے۔ جس میں سب سے پہل کام اپنے جسم کے کسی حصے پر بلیڈ یاکسی نوکدار چیز سے کوئی خاص نشان بنانے یا کوئی لفظ ، عدد یا جملہ لکھنے کی ہدایت ہوتی ہے ۔ پھر اس میں کامیابی کے بعد کسی نوکدار چیز سے اپنے جسم کو چھیدنے یا اور کسی قسم کا زخم لگانے یا نقصان پہنچانے کی ہدایات ملتی ہیں۔ یہ چیلنج پورا نہ کرنے کی صورت میں ہدایت کار کے ذریعہ سزا بھی تجویز ہوتی ہے ۔ ان سب چیلنجوں کو جو لوگ پورا کرتے ہیں انہیں گیم جیتنے کے لئے آخری چیلنج موت کی صورت میں قبول کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں جتنے بھی لوگ اس گیم میں جیتے ہیں وہ سب خودکشی کرچکے ہیں۔ یہ گیم اور اس کے مطالبات انسان کو احساس کمتری کے ساتھ زندگی سے بیزاری پیدا کرتے ہیں۔ کم عمر بچوں میں جو ہر خواہش جلد پورے ہونے کی تمنا رکھتے ہیں یہ کھیل تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ بچے اس کھیل کے عادی ہوکر زندگی سے مایوس اور آسانی سے نتہائی اقدام کر بیٹھتے ہیں۔ حکومت ہند نے اس گیم سے بچانے کے لئے فیس بک ، واٹس ایپ ، گوگل اور مائیکرو سافٹ وغیرہ سوشیل نیٹ ورکنگ اداروں کو پابند کردیا ہے کہ وہ موت کے اس کھیل تک لے جانے والے سارے مواد بند کردیں۔ لیکن سب سے بڑی ذمہ داری والدین اور اور سرپرستوں کی ہے۔ جب یہ گیم شرعی و انسانی نقطۂ نظر سے حرام ہے ، اس لئے کہ اس سے بچوں میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے تو پھر ہم کیونکر اپنے بچوں کو اس کی اجازت دیں۔ اس قسم کے تباہ کن گیموں کے معاشرہ میں عام ہونے کی اصل وجہ سوشیل میڈیا اور اسمارٹ فون کے استعمال کا غیر معمولی رواج ہے۔ اس وقت پورا کلچر اسمارٹ فون کلچر بن چکا ہے۔ ننھے ننھے بچے سیل فون پر ، فیس بک استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں بچوں کی تفریح کے لئے کھلونے فراہم کئے جاتے تھے۔ اب سوشیل میڈیا اس کی جگہ لے چکا ہے۔ اسمارٹ فون کا بڑھتا ہوا استعمال اور سوشیل میڈیا کی مشغولی بچوں کی تربیت اور کردار پر بہت زیادہ اثر انداز ہورہی ہے۔ آدمی سوشیل میڈیا اور فیس بک پر ہزاروں لوگوں سے جڑا ہوا ہے لیکن عملی زندگی میں کسی سے بات کرنے کی تک فرصت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ افراد خانہ اور بچوں سے تک تفصیلی گفتگو کی فرصت نہیں رہی۔ ہر شخص اپنی دنیامیں مگن ہے۔ بچوں سے اپنے بڑوں سے صلاح و مشورے لینے کا مزاج ختم ہوتا جارہا ہے۔ سوشیل میڈیا نیٹ ورکنگ کے ذریعہ بیرون ملک لوگوں سے دوستی کرکے بچوں پر ان کی نقل کا بھوت سوار ہورہا ہے۔ سوشیل میڈیا پر پیش کی جانے والی بیشتر چیزیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ لوگ ایسی جعلی چیزوں کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر کار نوبت ڈپریشن تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشیل میڈیا اور بلووہیل جیسے گیموں میں دلچسپی سے بچوں میں تنہائی کا احساس بڑھتا ہے ، پھر بتدریج رویہ میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ آخر کار خودکشی کا اقدام کر بیٹھتے ہیں۔ والدین کو چاہئے ہ بچوں کو فون کلچر سے دور رکھیں، عمر کے اس مرحلہ میں جن میں پڑھائی کے لئے یکسوئی ضروری ہوتی ہے،سوشیل میڈیا سے دلچسپی انتہائی مہلک ہے۔