قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

اس وقت برما کے مسلم اکثریتی صوبہ راکھین کے مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کے تصور ہی سے دل کانپ اٹھتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے ، آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پورا عالمِ اسلام عیدالاضحی کی آمد پر مناسک حج اور فریضۂ قربانی میں مشغول تھا ، برما کے صوبے راکھین میں مجبور و بے کس مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ، بے یار و مددگار انسانوں کی لاشیں جل رہی تھیں۔ خواتین کی عصمت دری کرکے انکی ننگی لاشوں کو درختوں کے ساتھ لٹکا دیا جارہاتھا۔ بچوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں بکھیر دیاجارہا تھا۔ جوانوں ، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو ایک خندق میں جمع کرکے ان کے اوپر بلڈوزر چلوا کر انہیں زندہ دفن کردیا جارہا تھا۔ بے بس و لاچار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا جارہا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ۵ ؍دنوں میں ۲۱۰۰ ؍قصبے مسلمانوں کے وجود کے ساتھ نذر آتش کردئیے گئے ہیں۔ ۱۵۰۰ ؍عورتوں کی عصمت ریزی کرکے انہیں فوجیوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ چلتے پھرتے انسانوں کوباندھ کر ان کے مختلف اعضاء کاٹے جارہے ہیں اور انہی کے سامنے ان اعضاء کو درندوں کے حوالے کیاجارہا ہے۔ ظلم کی ایک بدترین ریت چلائی گئی کہ ظالم درندے برمی مسلمانوں کو مختلف جگہوں سے کاٹتے ہیں اور جب ان کا خون بہنے لگتا ہے تو اس پر مختلف اقسام کے مرچ مسالے پھینکتے ہیں جس کی وجہ سے اذیت انتہاء کو پہنچ جاتی ہے۔ ایک لاکھ انسان جنگلوں میں درندوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ایک لاکھ افراد نازک حالت میں ہیں جن کو ابتدائی طبی سہولیات سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ایک سو کلو میٹر پر آباد سارا علاقہ صفحۂ ہستی سے مٹادیاگیا ہے۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے، لیکن مظالم کے اس کربناک المیے کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ حقوق انسانی کی علمبردار ساری تنظیمیں بے بس نظر آرہی ہیں۔ عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ لندن ویسٹ منسٹر میں ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے صرف پانچ افراد ہلاک اور ۵۰ زخمی ہوگئے تھے لیکن اس کے رد عمل کا یہ عالم تھا کہ پوری دنیا ماتم کدہ بن گئی۔ ایفل ٹاور بجھا دیا گیا۔ تل ابیب میں اندھیرا کردیاگیا۔ دوبئی اسکائی اسکریپر میں مہلوکین کے نام جلی حروف سے شائع کئے گئے اور ماتمی انداز میں سنائے گئے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کے دانشوروں کی انسانیت کے تئیں فکر مندی کا یہ عالم تھا کہ گویا ان پر فکر اور کڑھن کی عالمی چادر تن گئی تھی۔ صرف پانچ افراد کی ہلاکت پر واویلا مچانے والی منافق دنیا برما میں ہورہے انسانیت سوز مظالم پر مجسمہ سکوت بنی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر راکھین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں اگرچہ وقتاً فوقتاً آواز اٹھتی رہتی ہے مگر وہ بے اثر ثابت ہوتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ نے برما حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانیکا مطالبہ کیاہے۔ ۲۰۱۲ ؁ء میں ان عالمی اداروں کی کوشش سے ایک کمیشن بھی تشکیل دیاگیاتھا، مگر عین وقت پر برما حکومت نے اقوام متحدہ کی زیر قیادت کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ نومبر ۲۰۱۶ ؁ء میں اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے مظالم کی رپورٹ مرتب کی تھی، لیکن ظلم و جبر کے تسلسل میں پھر بھی کوئی فرق نہیں آیا۔

میانمار (سابق برما) کی کل آبادی پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ مسلمان یہاں کی کل آبادی کا چار فیصد ہیں۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت راکھین ( جس کا اصل نام اراکان ہے) میں آباد ہے۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کی آمد کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ مسلمان یہاں تجارت کی غرض سے آئے۔ گیارہویں صدی سے مغل دورِ حکومت میں یہاں مسلمانوں کی باقاعدہ آباد کاری کا آغاز ہوا۔ اس خطے کے مسلمانوں پر مظالم کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ یہاں کی مسلم آبادی پر سختیوں کا سلسلہ ۱۵۵۰ ؁ء ہی سے ہے۔ اس وقت کے بادشاہ Dayintnaungo نے عیدالاضحی اور گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی تھی۔ پھر ۱۷؍ ویں صدی میں بادشاہ بودھاپایہ نے چار اہم مسلمان اماموں کو گرفتار کرکے قتل کروایا تھا۔ اسی طرح ۱۷۸۲ ؁ء میں اس وقت کے بادشاہ نے مسلم علماء کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا تھا اور نہ کھانے پر موت کی سزا تجویز کی تھی۔ چنانچہ علماء کی بڑی تعداد بادشاہ کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ۱۷۸۴ ؁ء تک اراکان کا علاقہ ایک مستقل آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر تھا۔ پھر برما اس پر قابض ہوا اور اپنے ایک صوبے کے طورپر اسے ضم کرلیا۔ ایک صدی بعد ۱۸۸۴ ؁ء میں جب برما ، برطانیہ کے زیر قبضہ آگیا تو اراکان بھی برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا۔ برطانیہ سے آزادی کے لئے جب برصغیر میں تحریکیں اٹھیں تو ہندو پاک کی طرح برما بھی ۱۹۴۸ ؁ء میں آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد بھی برما نے اراکان کو اپنے ایک صوبے کے طورپر برقرار رکھا۔ جب سے برما نے اراکان کو اپنے ساتھ ضم کرلیا تب ہی سے اس کی پالیسی رہی کہ اس صوبے سے مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ ۱۹۲۱ ؁ء میں یہاں کی کل مسلم آبادی قریب پانچ لاکھ تھی۔ برمی مسلمان ان مسلمانوں کو کہاجاتا تھا جو مغلیہ دور میں یہاں آباد تھے۔ بعد میں آباد ہونے والے مسلمانوں کو روہنگیا کا نام دیاجانے لگا۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے برما پر چڑھائی کی تو اس دوران برٹش فورسیز نے مقامی مسلمانوں کو جاپانیوں سے مقابلہ کے لئے مسلح کیا ۔ اس طرح مقامی نیشنلسٹ جو برطانوی سامراج کے خلاف تھے، وہ بھی ان مسلح مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف جاپانی فوجیوں نے بھی مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا ۔اس لڑائی میں قریب پانچ ہزار مسلمان مارے گئے اور تقریباً ۲۲ ہزار اپنی جان بچاتے ہوئے بنگال ہجرت کر گئے۔ ۱۹۳۰ ؁ء میں برمی مسلمانوں کے خلاف خون ریز فسادات اس وقت شدت اختیار کرگئے جب رنگون پورٹ پر لیبر اشوابھرا اور انڈین مسلم ورکر ہڑتال پر چلے گئے۔ برٹش حکومت نے انہیں دھمکانے کے لئے مقامی برمیوں کو ان کی جگہ بھرتی کرلیا۔ لیکن اپنی ملازمتیں جاتی دیکھ کر مسلمان پھر کام پر واپس آگئے۔ اس طرح برمی بھرتیاں ملتوی ہوئیں۔ برمی مزدوروں نے اس کا الزام انڈین مسلمانوں کے سر دھر کر تقریباً ۲۰ ہزار مسلمانوں کو قتل کردیا۔ اس کے بعد ۱۹۳۷ ؁ء میں برمیوں نے ’’برما صرف برمیوں کے لئے‘‘ تحریک کا آغاز کیا اور اس بہانے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ اس قتل عام میں ۱۳؍مساجد شہید کردی گئیں ۔ مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیاگیا۔ جنرل وِن جب اقتدار پر آیا تو اس نے مسلم دشمنی کو عروج پر پہنچادیا۔ اس نے برمیز نیشنلیز لاء پاس کروادیا ، جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی گئی۔ فوج میں ملازم مسلمانوں کی ملازمتیں ختم کردی گئیں۔ مسلم کمیونٹی کے لئے معاشی مسائل پیدا کردئیے گئے۔ ۱۹۴۲ ؁ء میں بدھسٹوں نے مسلمانوں کے خلاف منظم تحریک شروع کی۔ مارچ ۱۹۴۲ ؁ء سے جون ۱۹۴۲ ؁ء تک تین ماہ میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ پھر ۱۹۵۰ ؁ء میں دوبارہ مسلمانوں کے خلاف تحریک اٹھی۔ تشدد کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔ ہزاروں مسلمان قتل اور بے گھر کردئیے گئے۔ ۱۹۶۲ ؁ء میں برما پر فوجی حکومت کا قبضہ ہوا۔ برما کی ملٹری حکومت نے بھی اراکان کے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ شروع کیا جو وقفہ وقفہ سے ۱۹۸۲ ؁ء تک جاری رہا اور اس عرصہ میں ۲۰ لاکھ مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور لاکھوں شہید ہوئے۔ ۱۹۷۱ ؁ء سے ۱۹۷۸ ؁ء تک متعدد مرتبہ مسلم آبادی والے صوبے اراکان کے راہبوں نے بھوک ہڑتال کرکے یہ مطالبہ کیا کہ ان مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا جائے۔ بنگلہ دیش نے انہیں قبول کرنے سے انکار کیا۔ تب سے بدھ بھکشو، مسلمانوں کو ملک پر بوجھ تصور کرتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان کی نسل کشی کے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں۔ طالبان نے اپنے دور اقتدار میں جب بدھا کے مجسمے کو توڑ ڈالا تو برما کے بدھوں کا رویہ مزید متشدد ہوگیا۔ انہوں نے تانگو کی سب سے قدیم مسجد کو مسمار کرنے حکومت سے مطالبہ کیا۔ مطالبہ کومنوانے کے لئے مسلمانوں کا قتل شروع کردیاگیا۔ ان کی املاک کو نذر آتش کرکے حکومت پر دباؤ ڈالا گیا ۔ بالآخر حکومت نے مسجد پر بلڈوز چلا دیا۔ ۱۹۹۷ ؁ء میں ایک قدیم بدھا بت کے کچھ حصے مسمار کرنے اور بدھ لڑکی کی آبر و ریزی کا الزام مسلمانوں کے سر لگادیاگیا ۔ جوبعد ازاں جھوٹ ثابت ہوا ، محض الزام کی بنیاد پر تقریباً ۱۵ سو مسلمان، بھکشوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور مسلمانوں کے مکانوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ ۲۰۰۱ ؁ء میں عام آبادی کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لئے شر انگیز پمفلٹس تقسیم کے گئے ۔ جس کے نتیجہ میں مقامی آبادی کے ہاتھوں مسلمانوں قتل ہوئے۔ ۴۰۰ گھر جلادئیے گئے اور ۱۱ مساجد کو شہید کردیاگیا۔ پھر جون ۲۰۱۲ ؁ء سے دوبارہ مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑک اٹھا۔ جو اکتوبر ۲۰۱۲ ؁ء تک جاری رہا۔ ان خون ریز حملوں کے پیچھے تحریک 969 کا ہاتھ تھا۔ یہ وہ تحریک ہے جسے بدھ قوم پرستوں نے مسلمانوں کے قتل عام کے مقصد سے تشکیل دیا تھا۔ جس کا صدر اشن وراتھونامی ایک راہب ہے ۔ اس شخص نے مقامی برمیوں کو مسلم دکانداروں سے خرید و فروخت سے گریز کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کی معیشت بری طرح متاثر ہو۔ ۲۰۱۲ ؁ء کے فسادات میں قریب ایک لاکھ ۲ ہزار مسلمان لاپتہ ہوئے جوپھر مل نہ سکے۔ ۲۰۱۳ ؁ء کے فسادات محض ایک مسلم سنار اور ایک بدھ پیرو کار کی بحث سے شروع ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے سڑکوں پر پھیل گئے اور درجنوں مسلمان قتل کردئیے گئے۔ ۲۰۱۲ ؁ء میں شروع کئے گئے حملوں میں ایک رپورٹ کے مطابق صرف ابتدائی پندرہ دنوں میں ۲۰ ہزار سے زائد مسلمان شہید کردئیے گئے۔ خون ریزی اور نسل کشی کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو دنیا کی نگاہوں کے سامنے انجام دیاجارہا ہے۔ اب تازہ تشدد ۲۰؍اگست ۲۰۱۷ء کو شروع ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اندرون ایک ہفتہ پندرہ سے بیس ہزار مسلمانوں کو جن میں جوان ، بوڑھے، بچے اور خواتین ہیں شہید کردیا گیاہے۔ گزشتہ ۲؍ستمبر ۲۰۱۷ ؁ء کو ۴۰۰ مسلمانوں کو شہید کردیاگیا۔ اس دوران ۹۰ ہزار اراکانی مسلمان میانمار سے فرار ہوکر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ذرائع کے مطابق گزشتہ ۸ دنوں میں ۶۰ ہزار افراد سر حد پار سے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد اپنے دیہات چھوڑ کر راکھین کے دیگر شہروں میں واقع مندروں ، اسکولوں اور مساجد میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ حالیہ فسادات اس وقت بھڑک اٹھے جب اگست کے او اخر میں راکھین کے قریب کچھ فوجی چوکیوں پر دہشت گردوں نے حملے کئے ۔ پولیس باغیوں کے پکڑنے کے بہانے دیہاتوں میں کریک ڈاؤن کررہی ہے۔ راکھین کے مسلمانوں کے ساتھ بڑی مشکل یہ ہیکہ ان کو نہ ہجرت کرنے کے لئے محفوظ راستہ ملتا ہے اور نہ ہی پڑوسی ملک انہیں قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ تھائی لینڈ سے ان کی سرحد ملتی ہے لیکن وہ انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ بنگلہ دیش کے حکام کا کہناہے کہ ان کا ملک زائد مہاجرین کے بوجھ کا متحمل نہیں ہے بار ہا ایسا ہوا کہ سمندری راستہ سے بڑی مشکلات سے برمی مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اور اس نے انہیں دوبارہ کشتیوں پر سوار کرکے واپس کردیا۔

ایک طرف برمی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، ان پر زمین تنگ کردی جارہی ہے۔ ماں کی ممتا کے آرزومند معصوموں کو چیلیں کھارہی ہیں کتے نوچ رہے ہیں، عورتیں ظالموں کی ہوس کا نشانہ بناکر ذبح ہورہی ہیں۔ درندہ صفت بھکشوں نے بلا تمیز بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام جاری رکھا ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار تنظیمیں اور مسلم ممالک کے رہنما ہیں جن کی بے حسی اور بے ضمیری پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ برمی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی ہے۔ مگر امت مسلمہ کی خاموشی نہ جانے لب کھونے کی کیا قیمت مانگتی ہے ۔ کیا مسلم قائدین اندھے ، بہرے ہوگئے کہ نہ ظلم دکھائی دیتا اور نہ ہی مظلوموں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔ آخر عالمی برادری کا ضمیر کب جاگے گا؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ برمی مسلمانوں کے لئے ہر طلوع ہونے والا سورج موت کا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے۔ ان کا گھر بار ، کاروبار ، کھیت کھلیاں نذر آتش اور متعدد علاقے صفحہ ہستی سے مٹائے جاچکے ہیں۔ امت مسلمہ جسدواحد کی طرح ہے۔ اپنے مظلوم ایمانی بھائیوں کی داد رسی اس پر فرض ہے۔ اس سلسلہ میں عام مسلمانوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہے اور مسلم قائدین کو بھی۔ مسلم قائدین اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ میانمار کی حکومت سے احتجاج کریں۔ نہ ماننے کی صورت میں میانمار سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں ۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کو آمادہ کریں کہ وہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کا فوجی اتحاد وہاں اپنی امن فوج بھیجے ۔ وہاں کے بچے کچے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔ روہنگیا مسلمانوں کی شہریت اور ان کے حقوق بحال کرنے کے لئے برمی حکومت پر دباؤ ڈالیں اور جوروہنگیا مسلمان ہجرت کرکے تھائی لینڈ ، سری لنکا ، ملایشیا اور انڈونیشیاء پہنچ چکے اور وہاں کی جیلوں میں محروس ہیں انہیں رہا کرائیں۔پڑوسی مسلم ممالک کی یہ بھی ذمہ داری ہیکہ وہ ان مظلوم مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دیں اور ان کی مکمل باز آباد کاری کریں۔ خوشحال عرب ممالک بھی اس حوالے سے پہل کرسکتے ہیں۔ بنگلہ دیش اگر وسائل کی کمی کے سبب زیادہ تعداد کو پناہ نہیں دے سکتا ہے تو دیگر امیر عرب ممالک اخراجات کی پابجائی کریں۔ اس حوالہ سے ترکی کا کردار لائق ستائش ہے ۔ اس نے اعلان کردیا ہے کہ بنگلہ دیش برمی مسلمانوں کے لئے اپنی سرحد کھول دے ۔ جو بھی اخراجات ہوں گے وہ ترکی ادا کرے گا۔ ترک وزیر خارجہ نے عید الاضحی کے موقع پر کہا کہ بنگلہ دیش حکومت اپنے دروازے کھولے ، اخراجات کی فکر نہ کرے۔ مہاجرین پر جتنے بھی پیسے خرچ ہوں گے وہ ترکی برداشت کرے گا۔

عام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ملکوں میں حکومتوں پر دباؤ بنائیں تاکہ ان ملکوں کے حکمران برما میں ہورہے ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔ ہندوستان کے مسلم قائدین کو بھی مرکزی حکومت سے نمائندگی کرنی چاہئے ۔ برمی سفارت خانہ کو ای میل کرکے احتجاج کریں۔ دوسرا اہم کام دعا ء کا اہتمام ہے۔ ہر مسلمان اپنی پنج وقتہ نمازوں میں برمی مسلمانوں کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔ ایک مسلمان کی دعا دوسرے مسلمان بھائی کے حق میں قبول ہوتی ہے۔ تیسرا کام نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام ہے۔ نبی کریم ﷺ ایسے موقع پر قنوتِ نازلہ کا اہتمام فرمایاکرتے تھے۔ چوتھا کام یہ کہ جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ، سوشیل میڈیا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دوسروں تک پہنچائے۔ موجودہ دور کا میڈیا ان مظالم کو چھپارہا ہے۔ ہم سوشیل میڈیا کے ذریعہ ان مظالم کے تعلق سے لوگوں کو باخبر کرسکتے ہیں۔ تاکہ عام انسانی برادری کو اندازہ ہوکہ برما میں کیسے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ لیکن سوشیل میڈیا پر آنے والے مواد کے تعلق سے چوکس رہیں ۔سوشیل میڈیا پر پرانے ویڈیو کلپ گھمائے جارہے ہیں اور غیر ضروری مواد بلا تحقیقی ڈالا جارہا ہے ۔

آخری بات

ایک گزارش برما کے مسلمانوں سے بھی کرنی ہے وہ یہ کہ خدا کے لئے آپ اپنے ملک میں اسلامی اخلاق کا نمونہ بنیں۔ اخلا ق و احسان ایسی چیز ہے جس سے سنگ دل انسان بھی پیسج جاتا ہے۔ مسلمان جہاں کہیں اقلیت میں ہوں اگر وہ اسلامی اخلاق اور مقامی غیر مسلم برادرانِ وطن کے ساتھ حسن سلوک کو اپنا شیوہ بنالیں تو ان کے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح داعی امت ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کا فریضہ ہیکہ وہ دوسرے مذاہب والوں کو اسلام کی دعوت دیں ۔ اس میں خود ان کا تحفظ ہے۔ ۱۹۶۰ ؁ء میں مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے برما کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت برما کے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا : ’’ائے مسلمانو! میں صاف صاف دیکھ رہا ہوں کہ بہت جلد اس علاقہ میں جس میں تم نے بلا سا اے زیادہ عرصہ حکومت کی ہے مظلوم بن جاؤ گے اور تم پر ظالم و جابر مسلمان مسلط کردئیے جائیں گے۔ اس کا بہترین علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اپنی تجارت میں امانت داری اور میل جول میں حسن سلوک اختیار کرو اور اپنے بچوں کو سب سے پہلے دین کی تعلیم سے آراستہ کر۔‘‘مولانا کی یہ نصیحت آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ مرد حق آگاہ نے بہت پہلے محسوس کرلیا تھا ۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔

مولانا سید احمد ومیض ندوی

فون نمبر : 9440371335