طلاق ثلاثہ معاملہ : تین ججوں نے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قراردیا

چیف جسٹس اور جسٹس نظیر کا فیصلہ نظر انداز، مودی حکومت پر قانون بنانے کی ذمہ داری سونپی

ممبئی: حکومت ہند اور نام نہاد مسلم خواتین کے حقوق کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں کو آج ایک جانب جہاں راحت حاصل ہوئی وہیں مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی مسلم تنظیموں کو مایوسی ہاتھ لگی کیوں کہ پانچ ججوں والی سپریم کورٹ کی بینچ کے تین ججوں نے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرارد یا ہے نیزحکومت کو مشورہ دیا اس تعلق سے چھ ماہ کی مدت میں قانون بنائے۔

چیف جسٹس آف انڈیا جگدیش سنگھ اور جسٹس نظیر نے اپنے فیصلہ میں طلاق ثلاثہ کو قانونی بتایا اس سے بچنے کی تلقین کی لیکن وہیں دیگر تین ججوں جسٹس کورین جوزف، جسٹس روہنتن فالی نریمان، جسٹس ادئے امیش للت نے طلاق ثلاثہ کو سرے سے ہی خارج کردیا ۔

اس معاملے میں سب سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کی موقر تنظیم جمعیۃ علماء نے صدر مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر سپریم کورٹ کی از خود سماعت کے لیئے قبول کی گئی عرضداشت کی مخالفت کی تھی اور اس معاملے میں لگاتار مسلمانوں کے حقوق (سنی حنفی) کو پیش کیا تھا نیز سو موٹو رٹ پٹیشن میں جمعیۃ علماء کو بطور فریق سپریم کورٹ نے قبول بھی کیا تھا۔

سپریم کے آج کے فیصلہ کے بعد ممبئی میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے مایوسی کا اظہارکیا اور کہا کہ انہیں امید تھی کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے گا لیکن پانچ میں سے تین ججوں نے فیصلہ طلاق ثلاثہ کی مخالفت میں دیا جس سے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو شدید جھٹکالگا ہے ۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ ہندوستان میں حنفی مسلک کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور حنفی مسلک کے مطابق ایک بار میں دیا گیا تین طلاق قابل عمل ہے اور اسے طلاق مان لیا جاتا ہے حالانکہ اسے علماء نے معیوب قراردیا ہے اور علماء اور دانشور ہمیشہ اس عمل سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔نیز یہ ایک قانونی پالیسی ہے جسے عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر تسلیم کیا جانا چاہئے ،کیونکہ اس سے قبل کئی عدالتیں اس پر نظر ثانی کر چکی ہیں اورمسلم پرسنل لاء آئین ہند سے مختلف ہے لیکن ان دلائل کو عدالت نے نظر انداز کردیا جس سے انہیں شدید تکلیف ہوئی ہے ۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد اب انہیں مرکزی حکومت سے کوئی امیدنہیں بچی ہیکہ وہ مسلمانوں کے حق میں کوئی قانون بنائے گی۔

معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال ۰۱۵ ۲ میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس معاملے میں از خود ’’سو موٹو‘‘ پٹیشن کی سماعت کرنے کے احکاما ت جاری کیئے تھے جس کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا مستقیم احسن اعظمی نے طلاق ثلاثہ ،حلالہ اور تعدد ازدواج کی حمایت میں سب سے پہلے فروری ۲۰۱۶ میں عدالت عظمی سے رجوع کیا تھا جس کے بعد دیگر مسلم تنظیمیں بشمول مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر نام نہاد مسلم خواتین کے حقوق کا دعوی کرنے والی تنظیمیں بھی آگے آئیں تھیں ۔