دہلی: بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت عرضداشت پر آج ایک نیا موڑ یہ آیا گیا کہ عدالت عظمی نے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ عدالت کے باہر باہمی صلاح و مشورہ سے یہ معاملہ حل کر نے کی کوشش کریں کیونکہ یہ مذہب اور آستھا سے جڑا ہوا معاملہ ہے نیز عدالت اس معاملے میں ثالث بننے کو تیار ہے ۔

ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے آج اچانک چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے ایک عرضداشت پیش کی اور کہا کہ اس معاملے کو جلد از جلد پائے تکمیل تک پہنچایا جائے جس پر چیف جسٹس آف انڈیا جگدیش سنگھ کہر نے کہا کہ عدالت یہ چاہتی ہے کہ فریقین اس معاملے کو عدالت کے باہر حل کریں اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو سپریم کورٹ اس معاملے میں فریقین کی مدد کرنے کو تیار ہے ۔

آج کی عدالت کی کارروائی کے بعدمولانا ارشد مدنی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی ماضی میں چھ سات مرتبہ عدالت کے باہر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے لیکن ہر بار یہ کوشش نا کام ہوئی کیونکہ بابری مسجد کامعاملہ حق اور ملکیت کا معاملہ ہے جس سے مسلمان مذہبی حیثیت سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہوسکتا اور اس معاملے میں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کریگی وہ قابل قبول ہوگا۔

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے مشورہ کااحترام کرتے ہوئے کہا کہ وزراء اعظم راجیو گاندھی ، اٹل بہاری واجپائی، نرسمہا راؤ وغیرہ کے زمانے میں ایسی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن سب ناکام ہوئی ہیں لہذا عدالت کو ثبوت و شواہد کی روشنی میں حتمی فیصلہ کرنا چاہئے ۔

واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند بابری مسجد قضیہ کے متعلق شروع سے ہی ایک فریق رہی ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سب سے پہلے جمعیۃعلماء نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی ہے جمعیۃ علماء کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 کی سماعت کے دوران ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے مدعی جمعیۃ علماء کے وکلاء کو اطلاع کیئے بغیر خاموشی سے چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے معاملے کو اٹھایا حالانکہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے سبرامنیم سوامی کو اس معاملے میں مداخلت کاربننے سے روکتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ معاملے کی سماعت کے دوران اس کی مداخلت کار کی عرضداشت پر فیصلہ کیا جائے گا ۔

جمعیۃ علماء کی جانب سے مقدمہ کی پیروی کررہے ایڈوکیٹ ارشاد حنیف نے کہا کہ سبرامنیم سوامی کی اس حرکت کے خلاف ۲۴مارچ کو جب معاملہ سماعت کے لیئے پیش ہوگا تو اس وقت چیف جسٹس سے اس کی شکایت کی جائے گی نیز جمعیۃ علماء کا ہمیشہ کی طرح موقف یہ ہوگا کہ عدالت ثبوت وشواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے۔

خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ ؁ء کی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیر احمد ؒ فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسمؒ شاہجہاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ گذشتہ برسوں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیاتھا ۔متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی ہے ۔مولاناسید نصیراحمدؒ فیض آبادی ، مولانا محمد قاسمؒ شاہجہاں پوری اورحافظ محمد صدیق صاحب مرادآبادی کے انتقال کے بعد صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش مولاناسید اشہد رشیدی اس معاملے میں مدعی بنائے گئے ہیں ۔