لکہنوُ:ودھان سبھا کے انتخابات کا سیاسی پارہ اپنے عروج پر ہے ،تیسرے دور کے انتخاب کا دور ختم ہوچکا ہے۔یوپی کے اس سیاسی انتخاب سے متعلق سیاستدانوں کی اپنی الگ الگ رائے ہے۔لیکن مولانا کلب جوادصاحب کے بہوجن سماج وادی پارٹی کے سپورٹ کے اعلان کے بعد یوپی کی سیاست میں ایک اتھل پتھل کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔جس کی وجہ سے سیاست کے میدان میں اپنی اپنی قسمت آزمائی کرنے والی پارٹیوں میں ایک عجیب سی نفسیاتی کیفیت کا احساس پیدا ہوتے ہوا دکھائی دے رہا ہے۔مولانا کی حمایت کےبعد بہوجن سماج پارٹی کو اس انتخاب میں ایک اچھا نتیجہ برآمد ہونے کی امید قوی نظر آرہی ہے۔

ظاہر ہے کہ مولانا کلب جواد کی حمایت کے بعد مسلمانوں میں دوطرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں ۔بعض سیاسی پارٹی سے جڑے ہوئے لوگوں نےاپنے ذاتی فائدے کے لئے ان کے اس اقدام کی مخالفت کی اوروہیں بہت سے مسلمانوں کے بڑی جماعتوں کے سربرہان نے ان کے اس فیصلہ کا کشادہ دلی کے ساتھ استقبال کیا ۔
’’الامام فاونڈیشن ‘‘’’امبیڈکرنگر ‘‘کے چیرمین خواجہ شفاعت حسین نے بھی مولانا کلب جواد کے اس اعلان کی تائید کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ مولانا کا یہ قدم سیاسی بصیرت کا حامل ہے۔جو مسلمانوں کے حق میں بہت بہترہے۔چونکہ خواجہ شفاعت حسین ایک سینیر وکیل ہونے کے ساتھ ایک سوشل ورکر بھی ہیں ،وہ تقریباً بیس سال سے عوام کے درمیان اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں،بے سہارا اور غریب لوگوں کے لئے رہائش گاہ کی تعمیر اور ایجوکیشن کے میدان میں بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے اسکالرشپ اور بیوؤں کی کفالت کے لئے ان کی مالی امداد جیسے قابل تحسین کام مذہب وملت اور مسلک کے امتیاز کے بغیر انجام دے رہے ہیں۔جس کی وجہ سے امبیڈکرنگر اور اس کے اطراف میں عوام کے درمیان کافی مقبولیت رکھتے ہیں۔

خواجہ شفاعت حسین ایڈوکیٹ نے اپنی ورکنگ کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ لیا کہ کون پارٹی ہم مسلمانوں کے حق میں سود مند رہے گی ،اس کی بنیاد پر مولانا کلب جواد صاحب کے اعلان کی کھل کر حمایت کی اور لوگوں سے اپیل کی کہ لوگ اپنے ووٹ کا استعمال ایک اچھے حکومت کے تشکیل کے لئے کریں،جو مسلمانوں کے حق میں فائدے مند ثابت ہو اس لئے کہ اس قبل کی سرکار نے مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں قاصر رہی ہے۔باالخصو ص شیعوں کے حقوق کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ انھیں ان کے حقوق سے محروم رکھا ۔

خواجہ شفاعت حسین ایڈوکیٹ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ مولانا کلب جواد کا فیصلہ بہت ہی مناسب اور وقت کے تقاضہ پرمبنی ہے۔جو تمام مسلمانوں کے حق میں فائدے مند ہیں۔جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے ایسا کرتے ہیں۔لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیں۔تاکہ دوبارہ ان کے حقوق کا استحصال نہ ہوسکے۔