کتاب: زبان وترسیل

(اردو پرنٹ اوربرقی میڈیا کا لسانیاتی مطالعہ)

مصنف:ایم۔ جے۔ وارثی

مترجم: امتیاز وحید

ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

پہلی اشاعت:2015

قیمت:97

مبصر: سلمان عبدالصمد، جے این یو، نئی دہلی

اردو ادب میں ترسیلی نظم ونسق اور صوتیاتی پیمائش کے لحاظ سے شاید ہی اب تک کوئی بھرپور کام ہوا ہے۔ حد سے حد،اسلوبیاتی سطح پر فکشن نگاروں کے سرمایوں کو تولنے اور پرکھنے کی کوشش کی گئی۔اسلوبیاتی مطالعہ میں بھی اسلوب نگارش اور لفظی انتخابات سے کہیں زیادہ نفسیاتی پہلوؤں کو ڈَچ کیا گیا ہے۔ پیش نظر کتاب ’زبان وترسیل: اردو پرنٹ اوربرقی میڈیا کا لسانیاتی مطالعہ‘ میں لفظی ہم آہنگی اور صرفی و نحوی قواعد کے لحاظ سے اردو میں رائج الفاظ کا نئے نقطہ نظر سے جو مطالعہ پیش کیا گیا ہے،وہ واقعی توجہ طلب ہے۔ ماہر لسانیات ڈاکٹر ایم جے وارثی نے چند اردو اخبارات(قومی تنظیم، انقلاب، سیاست اور سنگم وغیرہ)کے تراشوں کی روشنی میں بہ زبان انگریزی جو لسانیاتی بحث کی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لفظی ہم آہنگی بلکہ زبان وادب کے صوتیاتی نظام کا گہرا علم اور لسانیات پر دسترس رکھتے ہیں۔ڈاکٹر وارثی کی اس کتاب کا اردو میں ترجمہ امتیاز وحید نے کیا ہے۔
پیش نظر کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں اردو برقی اور پرنٹ میڈیا کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس کی اجمالی تاریخ موجود ہے۔ ڈاکٹر وارثی نے بھی جام جہاں نما کو اردو کا پہلا اخبار تسلیم کیا ہے۔ اجمالی فہرست سازی کے بعد انھوں نے لکھا:’یہ بات دلچسپ ہے کہ ہندوستان کی 93زبانوں میں شائع ہونے والے اخباروں میں اردو اخبارات شروع کے چوتھے نمبر پر ہیں‘۔ یہاں پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ آراین آئی کی رپورٹ کے مطابق ہندی، انگریزی کے بعد اردو اخبارات کا ہی نمبر ہے، یعنی اب سرکولیشن اور اخبارات کی تعداد سے لحاظ سے اردو کا تیسرا نمبر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ برسوں پہلے ڈاکٹر وارثی نے جب یہ کتاب لکھی ہو ں تو اس وقت اردو اخبارات چوتھے نمبر پر ہوں گے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ترجمے کے وقت مترجم اس کا خیال رکھتے۔
دوسرے باب میں زبان اور تحریری ترسیلی نیٹ ورک کے لسانیاتی سروکار اور تیسرے میں الفاظ ومعانی کے نفسیاتی پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ان دونوں ابواب میں ترسیلی نظام، ترسیل اور پیغام کے درمیان بنیادی فرق،بین الشخصی رسل ورسائل اور بین الذات ترسیل کی وضاحت اور اخبارات کے جملوں کو سامنے رکھتے ہوئے صوتیاتی نظام پر بات چیت کی گئی ہے۔ ان دونوں ابواب کے مطالعہ سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ ادب اور صحافت دونوں لسانیاتی سطح پر کس قدر ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ ادب کی زبان کو ذرا مشکل اور صحافت کو قدرے آسان تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس سہل وثقالت کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جاتی ہے۔البتہ اس کتاب کے مطالعہ سے دونوں کے درمیان کی حقیقی تصویر کھل جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ انگریزی الفاظ کی تصریف کے بعد کیسے اہل اردو نے انگریزی الفاظ کو قبول کرلیا ہے اور وہ کیسے اپنے ادب وصحافت میں ا ن لفظوں کا بآسانی استعمال کرتے ہیں، جیسے یہ الفاظ خالص اردو کے ہی ہوں۔
شماریاتی ابعادوالا گوشہ صوتیاتی پیمائش پر مبنی ہے۔ا س کی تفہیم کے لیے خاطر خواہ لسانیاتی علوم سے واقفیت ضروری ہے۔ اس باب میں بنیادی طور پر مصمتہ اور مصوتہ پر بحث کی گئی ہے۔یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اردو میں کچھ وَویل ’الفاظ‘ اور کچھ فقط ’تلفظ‘(صوت) ہے۔ مثلاً، ا، و، ی، یہ حروف علت (وَویل)ہے، تاہم زبر، زبر، پیش وغیرہ صوتیاتی علتیں ہیں۔اسی طرح الفاظ ومعانی رشتوں کی نفسیات کا لسانیاتی جائزہ بھی عمدہ ہے۔
اس کتاب کی مشمولات اور مسائل ومباحث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لسانیات سے آگا ہ فرد کے لیے جملے تراشنا اور اس کے حقیقی ٹمپریچرکو محسوس کرنا بہت آسان ہے۔ کیوں کہ صوتیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے، جس میں الفاظ گھن گرج کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
لسانیات کے میدان میں ڈاکٹر وارثی اپنے اس انوکھے اور قابل توجہ کام کی حیثیت سے منفر د نظر آتے ہیں۔ اردو صحافت کو سامنے رکھتے ہوئے اب تک کوئی ایسا کام منظر عام پرنہیں آیا تھا۔ مصنف موصوف محقق اور ماہرلسانیات کی حیثیت سے معروف ہیں۔ علمی، تحقیقی اور لسانیاتی سروکار کے پس منظر میں عالمی سطح پر وہ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ان کے علمی کارناموں کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد اعزا ز سے انھیں نوازا گیا ہے۔
لسانیات اور صحافت سے متعلق کتاب کا ترجمہ کر وا کے این سی پی یو ایل نے ایک علمی ضرورت کو پورا کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ ایسی کتابوں کے ترجمہ سے نہ صرف اردو کا دامن وسیع ہوگا، بلکہ لسانیاتی مباحث سے قارئین جڑیں گے۔ لسانی علوم سے آگاہی کے بعد نہ صرف لفظی انتخابات کا معاملہ حل ہوتا ہے،بلکہ جملوں میں سلاست وروانی بھی آتی ہے۔ ’زبان وترسیل‘کے مطالعہ سے پتا چل جاتا ہے کہ اردو میں رائج الفاظ پیمائش میں کتنے باوزن اور کتنے ہلکے پھلکے ہیں یا پھر ایک لفظ سے نظریں چراکر دوسرے لفظ کو ترجیح دینے میں کیا حکمت عملی پوشیدہ ہوتی ہے۔ خلا صہ یہ کہ یہ کتاب نہ صرف اہل صحافت کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے بلکہ اردو کے تمام شیدائیوں کے لیے بھی۔