یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش نا قابل برداشت: مولانا ارشد مدنی

لا ء کمیشن کا قائم کردہ سوالنامہ حکومت کی جانبداری کا بد ترین نمونہ: مولانا ولی رحمانی
نئی دہلی: لا ء کمیشن آف انڈیا نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے تعلق سے عوام کی رائے جاننے کے لئے جو سوالنامہ جاری کیا ہے وہ قطعی جانبدارانہ اور بد نیتی پر مبنی ہے کیونکہ ان سوالوں کے جواب کسی بھی زاویہ سے دئے جائیں وہ یکساں سول کوڈ کے حق میں ہی جائیں گے۔ اس لئے یہ سوالنامہ مسلمانوں کیلئے نا قابل قبول ہے اور ملک کی تمام سرکردہ مسلم تنظیمیں اس سوالنامہ کے بائیکاٹ کا اعلان کرتی ہیں۔یہ مسلم پرسنل لا ء کو ختم کرنے کی سازش اور حکومت کی بد نیتی کا ثبوت ہے۔ اس کے خلاف ملک بھر میں رائے عامہ کو بیدار کیاجائے گا۔یہ اعلان آج پریس کلب آف انڈیا میں منعقد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مقررین نے کیا۔ پریس کانفرنس کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے جنرل سکریٹری مولانامحمد ولی رحمانی اور جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے خطاب کیا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ لاء کمیشن کے ذریعے قائم سوالنامہ بد نیتی کا مظہر اور مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے کی سازش ہے۔سوالنامہ میں اس طرح کے سوال تیار کئے گئے ہیں کہ ان میں جواب دینے والا الجھ جائے۔ کمیشن نے آئین کی دفعہ 44کا حوالہ دیتے ہوئے یکساں سول کوڈ کو ایک دستوری عمل قرار دینے کی کوشش کی ہے، جوسراسر دھوکہ اور فریب ہے۔سوالنامہ قطعی جانبدارانہ ہے۔اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس سوالنامہ کا بائیکاٹ کریں گے اور کوئی مسلمان اس کا جواب نہیں دے گا۔ایسا لگتا ہے کہ لاء کمیشن ایک خود مختار ادارے کی طرح نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے کام کر رہا ہے۔مولانا رحمانی نے کہا کہ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کا ملک ہے اور یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف تہذیب وثقافت والے لوگ رہتے ہیں۔ اس لئے یکساں سول کوڈ اس ملک کے لئے قطعی مناسب نہیں ہے۔اس ملک کے تمام عوام پر ایک ہی سوچ ااور نظریہ کومسلط نہیں کیا جا سکتا۔اگر یکساں سول کوڈ کے نفاذ میں زبردستی کی گئی تو یہ ملک کو توڑنے والا اقدام ہوگا۔ اس ملک کے حق میں یہی ہے کہ یہا ں رہنے والو ں کوان کے اپنے مذہب اور روایتوں کے مطابق آزادی سے زندگی گذارنے کے حق کو برقرار رکھا جائے، جو کہ انہیں ملک کے آئین نے دیا ہے۔مولانا رحمانی نے کہا کہ دراصل مودی حکومت کے پاس کوئی حصولیابی نہیں ہے اس لئے عوام کا دھیان بھٹکانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی سے سرحد تو سنبھالی نہیں جا رہی ہے اور ملک کے اندر ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تین طلاق کے ایشو پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنا موقف حلف نامہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش کر چکا ہے۔ مسلم معاشرہ میں خواتین کے استحصال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مودی جی تو خود اپنے گھر میں استحصال کر رہے ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک سے زیادہ شادیوں اور طلاق کا رواج مسلمانوں کے مقابلے ہندووں میں زیادہ ہے، ا س بات کی وضاحت 2011کی مردم شماری کی رپورٹ میں ہوچکی ہے۔
جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سیدارشد مدنی نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لا ء کمیشن کا سوالنامہ قطعی نا منظور ہے اور سا ری مسلم تنظیموں نے مسترد کرتے ہیں۔ہمارا پرسنل لا ء قرآن اور حدیث ہے اور وہی ہمارا دستور ہے،جس میں قیامت تک کوئی تبدیلی یا ترمیم نہیں ہو سکتی۔یکساں سو ل کوڈ کے ایشو کو ہوا دے کر مودی جی ملک میں جمہوریت کے نام پر بد ترین تانا شاہی اور نفرت کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمان اس ملک میں ایک ہزارسال سے رہتے آ رہے ہیں اور اپنے پرسنل لا ء پر ہی عمل کرتے رہے ہیں لیکن آج تک کہیں بھی کسی طرح کا کوئی ٹکراؤیا پریشانی پیش نہیں آئی۔ اب اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ یہ حکومت اقلیتوں کو ان کے پرسنل لا ء سے محروم کرنے پر آمادہ ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے اپنے اپنے پرسنل لا ء پر عمل کرنے سے ملک کے اتحاد و یکجہتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ ہمارے ملک کی ایک خصوصیت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوتا ہے تو مسلمانوں کی شناخت ہی ختم ہو جائے گی اس لئے مسلمان یکساں سول کوڈ کے نفاذ کوکسی قیمت پر منظور نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ دراصل موجودہ حکومت کی نیت خراب ہے وہ اپنے سیاسی مقاصد اور عزا’ئم کی حصولی کے لئے نفرت کے بیج بو رہی ہے۔ جس کی ہم ہر سطح پرمخالفت کریں گے۔مولانا نے لاء کمیشن کے قائم کردہ سوالنامہ کے تعلق سے کہا کہ اس نے عوام سے جو جواب مانگے ہیں تو مسلمان تو اس ملک میں اقلیت میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ چونکہ غیرمسلم یعنی ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ بہت زیادہ ہے اس لئے زیادہ جواب بھی یکساں سول کوڈ کے حق میں ہی آئیں گے۔ لاء کمیشن یہی چاہتا ہے کہ وہ اکثریت کی رائے بتا کر یکساں سول کوڈ کے حق میں اپنی رائے دے دے جوکہ ملک کی اقلیتوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہوگی۔مولانا مدنی نے کہا کہ وہ حکومت اور لاء کمیشن کے اس اقدام کے خلاف ملک بھر میں مہم چلائیں گے اور اس کی شروعات آج ہی لکھنؤ سے کر دی جائے گی۔اس موقع پر مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا ابوالقاسم نعمانی،قاری محمد عثمان منصورپوری صدرجمعیۃعلماء ہند، مولانا محمودمدنی جنرل سکریٹری جمعیۃعلماء ہند، آل انڈیا جمعیۃ اہل حدیث کے ناظم عمومی مولانا اصغر امام مہدی سلفی اورجماعت اسلامی کے سابق نائب امیر محمد جعفرنے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر موجود دیگر معززین میں اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ڈاکٹرقاسم رسول الیاس کے علاوہ بورڈ کی کئی خواتین اراکین نے شرکت کی۔ پروگرام کی نظامت کمال فاروقی نے کی۔