بر صغیر کے مسلمانوں نے جس طرح عام زندگی میں اپنے ہم وطن غیر مسلموں کے بہت سے رسم و رواج اپنے معاشرے میں داخل کر لئے ہیں اسی طرح شادی بیاہ کے موقعوں پر جہیز کی رسم کو بھی ایک اہم رسم بناکر داخل کر لیا ہے۔ آج حال یہ ہے کہ لڑکی کے والدین اسے کسر شان سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی لڑکی کو جہیز کے بغیر رخصت کر دیں۔ اس رسم کے ذریعہ وہ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور احباب میں اپنی امارت کی شان ظاہر کرتے ہیں۔ مگر اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جو ساز و سامان اپنی بیٹی کو جہیز کے نام پر دیتے ہیں وہ ان کی اقتصادی قوت سے زیادہ ہوتا ہے۔
لفظ جہیز عربی زبان سے اردو زبان میں آیا ہے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سامان مہیا کرنا۔ اردو زبان میں یہ لفظ شادی کے موقع لڑکی کے مائکے سے ملنے والے سامان کے لئے استعمال ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں جہیز کی دو قسمیں رائج ہیں۔
اوّل قسم وہ ہے جو عام طور پر رائج ہے یعنی لڑکی کو شادی کے وقت رخصت کرتے ہوئے اس کے والدین کی طرف سے دیا جانے والا ساز و سامان۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں لڑکے والا لڑکی والے سے شادی سے قبل ایک متعین رقم کا مطالبہ کرتا ہے اور لڑکی والا اسے شادی کی شرط کے طور پر شادی سے قبل ادا کرتا ہے۔ یہ رسم عام تو نہیں ہے مگر جنوبی ہند کے اکثر علاقوں اور شمالی ہند کے بہار اور بنگال میں رائج ہے۔
اسلام میں مندرجہ بالا دونوں قسموں کے جہیز کی کیا حیثیت ہے؟ اگر اس پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جہیز کی اوّل قسم بر صغیر کے مسلمانوں میں قدیم زمانے سے رائج تو ہے مگر جب ہم تاریخ اور سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اہل عرب میں کبھی اس قسم کی کسی رسم کا رواج نہ تھا۔
حضور اکرمؐ نے جتنی شادیاں کیں ان کے سلسلہ میں کہیں سے یہ علم نہیں ہوتا کہ آپؐ کو کسی شادی میں جہیز نام کی چیز ملی ہو۔ وہ شادی چاہے قبل نبوت کی ہو یا اعلانِ نبوت کے بعد کی۔ آپؐ نے اپنی چار صاحبزادیوں کی شادیاں بھی کیں۔ حضرت زینبؓ کی شادی ابو العاص بن ربیع لقیط سے۔ حضرت رقیہؓ اور حضرت امِ کلثومؓ دونوں بہنوں کی شادیاں ابو لہب کے دو بیٹوں یعنی عتیبہ اور عتبہ سے قبل نبوت کیں بعد میں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی شادی یکے بعد دیگر ے حضرتِ عثمان غنیؓ سے کیں مگر کتب تاریخ و سیرت میں کہیں جہیز کا ذکر نہیں ملتا ہے اور شاید اسی وجہ سے جہیز کی حمایت کرنے والے لوگ ان شادیوں کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ حضرت فاطمہ الزہراؓ کی شادی جو حضرت علیؓ سے ہوئی تھی اس کی مثال پیش کرتے ہیں کیونکہ سیرت کی کتابوں میں ان کی رخصتی کے وقت کچھ سامان دینے کا ذکر ملتا ہے۔ اس سامان کی تفصیل بھی سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیا تھا۔ لیکن جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سامان (جہیز) دینے کی وجہ کیا تھی۔ دراصل اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت علیؓ اپنی چار پانچ برس کی عمر سے ہی رسول اکرمؐ کے گھر میں پرورش پا رہے تھے۔ اس لئے نہ ان کے پاس اپنا کوئی علاحدہ مکان تھا اور نہ کوئی اثاثہ۔ اس وقت تک آپ کا کوئی ذریعہ معاش بھی نہ تھا اس طرح حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کا شادی کے وقت تک وہی مکان تھا جو رسول اکرمؐ کا تھا۔ اس لئے شادی کے بعد جب یہ دونوں حضرت حارث بن نعمان کے دیے ہوئے گھر میں منتقل ہو ئے تو رسول اکرمؐ نے ان کو اپنے گھر میں سے کچھ ضروریات کی چیزیں ساتھ کر دیں۔ اس عمل سے جہیز کی کسی رسم کو رواج دنیا مطلوب نہ تھا اور اس واقعہ کو موجودہ جہیز کی رسم کی بنیاد بنانا بڑی زیادتی ہوگی۔ جہاں تک جہیز کی دوسری قسم کا سوال ہے اس کا تو اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں اور وہ تو پوری طرح سے مشرکانہ نظام کی دین ہے۔
مسلم معاشرے میں رائج جہیز کی یہ رسم دھیرے دھیرے اس قدر وبائی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کہ اس سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جہاں پر بغیر جہیز یا کم جہیز کی بات آدمی سوچ بھی نہیں پا رہا ہے بلکہ اب تو اس جہیز کی نمائش کا اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے کہ اس کو سجانے کے لئے گھنٹوں صرف کئے جاتے ہیں اور اسے ہر زاویہ سے اس طرح سجایا جاتا ہے کہ جس طرح ایک ہوشیار دوکاندار اپنے مال کو دوکان میں سجاتا ہے تاکہ آنے والے خریدار کی نگاہ سے کچھ بچ نہ سکے ہر سامان کو اس طرح نمایاں کرکے سجایا جائے کہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جائے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ہی اس کی فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی بھی ہوتی ہے تاکہ سند رہے جہیز کی اس نمائش کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ ہرشخص دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں لگا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاک دامن، عفت مآب، نیک سیرت دخترانِ ملت جن کے والدین کی اقتصادی حالت اس لائق نہیں ہے کہ وہ اچھا جہیز دے سکیں کے لئے رشتے ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ اور حقیقت میں مشکل تو ان لوگوں کے لئے ہے جو حلال روزی کماکر کسی طرح سے اپنے گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔ وہ کہاں سے جہیز کے اس مطالبے کو پور اکریں جو لڑکے والوں کی طرف سے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔
اس رسمِ قبیح کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں سب سے پہلی برائی تو یہ ہے کہ لڑکے والے لڑکے کی عمر شادی کے لائق ہونے پر بھی اچھے جہیز کی چاہت میں شادی نہیں کرتے دوسری طرف لڑکی والے کے لئے یہ مجبوری کہ وہ جہیز کی مانگ پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے لڑکی کی شادی کرنے سے مجبور رہتا ہے۔ ایسی حالت میں عمر کا تقاضہ، جذبات، صنفی ضرورت کو روکنے میں ان نوجوانوں کو بہت سے مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ دوسری طرف آج کا ماحول، سماج، ٹیلی ویزن اور دوسرے محرکات مسلم نوجوان مردوں اور عورتوں کو پاک دامن بنے رہنے کے لئے ایک چیلنج بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس رسم کی بدولت ایک خود غرضانہ ماحول بھی پیدا ہو رہا ہے۔ جہاں پر انسان خود تو دوسروں سے جہیز کا طالب ہوتا ہے مگر جب اس کو جہیز دینے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ مذہب کی ردا اوڑھ کر شرع اور مذہب اسلام کی دہائی دیتا ہے جس کے نتیجہ کے طور پر ایک غیر متوازی معاشرہ وجود میں آگیا ہے جہاں پر ہم کوشش یہ کرتے ہیں کہ اپنی لڑکیوں کی شادیاں تو اپنے سے کمتر لوگوں،خاندانوں میں کر دیتے ہیں مگر لڑکوں کے لئے اونچے گھرانے کی بہو، جو اچھا جہیز بھی لائے ڈھونڈھتے ہیں۔ اس طرح کی بے جوڑ شادیاں ظاہری طور پر کامیاب دکھتے ہوئے بھی زیر زمیں شکر رنجی کی داغ بیل ڈالتی ہیں جس سے ایک غیر آسودہ معاشرے کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ دوسری طرف اس سے ایک اور برائی وجود میں آرہی ہے وہ ہے کہ انسان اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کر رہا ہے۔ شادی کے بعد بیوی کی کفالت شوہر کی ذمہ ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کوپورا کرنے کے بجائے وہ پہلے ہی اپنی ہونے والی بیوی کے والدین کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کو اپنا حق مانتے ہیں۔ جس پر ان کا دینی، اخلاقی اور قانونی کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر جہیز کی رسم سے پاک معاشرہ کی تشکیل کس طرح ہو۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے علماء عظام کی ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں اس لعنت کو مٹانے کے لئے لوگوں کو متوجہ کریں اور اس طرح کے نکاح کی شرعی قباحتوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔
دوسری طرف ملت کی خواتین میں عزت نفس کو اس طرح بیدار کیا جائے کہ وہ ایسے حرام خور نوجوانوں سے شادی کرنے کے بجائے صالح، متقی نوجوان سے شادی کرنے کے لئے راضی رہیں جو بغیر جہیز کے شادی کے لئے تیار ہوں بھلے ہی وہ دنیاوی اعتبار سے کم تر معلوم ہوں۔ اسی طرح مسلم نوجوانوں میں بھی خود داری پید اکی جائے اور ان کے ذہنوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ اپنے زورِ بازو سے کمائی دولت پر فخر کریں نہ کہ سسرال سے ملے جہیز پر۔ بلکہ وہ لڑکی کے والدین کو اپنا محسن مانیں کہ وہ اپنی بیٹی کو ان کی شریکِ حیات بنانے پر راضی ہو رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں ان افراد کا رول بہت نمایاں اور پر اثر ہو سکتا ہے جن کو خدا وند قدوس نے مال و دولت سے نوازا ہے اگر یہ حضرات اپنی لڑکیوں کی شادی کے موقع پر جہیز کی نمائش سے خود کو بچائے رکھیں اور اگر شفقتِ پدری کے تحت وہ کچھ دنیا چاہیں تو اس طر ح سے دیں کہ اس سے سماج کے دوسرے افراد میں غلط پیغام نہ جائے۔ جہیز دینے اور لینے کی رغبت کو فروغ نہ ملے۔
اگر اس طرح کی تدابیر کرکے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کی کوشش ہمارے علماء، امرا اور ملّت کا درد رکھنے والے حضرات نے نہ کی تو بہت جلد جہیز کا یہ ناگ مسلم معاشرہ کو اس طرح ڈس لے گا کہ پھر اس میں نئی روح پھونکنا انتہائی مشکل ہوگا اور مسلم معاشرہ کو بھی جنسی انار کی سے نہ بچایا جا سکے گا۔ ابھی وقت ہے کہ ہم سب اپنے اپنے طور پر اس فرض کو پورا کریں تاکہ مسلم معاشرہ جہیز کے اس عذاب سے نجات حاصل کر سکے۔
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018
موبائل:9452482159