رپورٹ: انور ظہیر

لکھنؤ کے افسانہ نگار اور اردو انجمن برلن کے صدرعارف نقوی کے جرمن زبان میں تازہ افسانوی مجموعے Zum Paradies auf Erden کی شاندار رسمِ اجراء جرمن راجدھانی برلن کے ایک ثقافتی مرکز میں کی گئی۔ جس میں ہندوستان، پاکستان،اور جرمنی کے دانشوروں اور ثقافتی شعبوں کے اہم لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اردوادیب کے افسانوں کے جرمن زبان میں مجموعے کی رسمِ اجراء یہاں کی گئی ہے۔ پچھلے سال عارف نقوی کی غزلوں اور نظموں کے جرمن تراجم کے مجموعے کی رسم اجراء بھی یہاں کی گئی تھی۔ جو کسی اردو شاعر کی برلن میں پہلی کتاب تھی۔
اتوار ۱۳/ جولائی کو ’قرب وجوار‘ نامی جرمن ثقافتی مرکز میں تقریب دو حصّوں میں منعقد کی گئی۔ عارف نقوی کے جرمن زبان میں افسانوی مجموعے کی رسمِ اجراء اور شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج لکھنؤ کے بچّوں کی پینٹنگس اور ڈرائنگس کی نمائش کا افتتاح۔ (نمائش کی تفصیل اگلی رپورٹ میں پیش کی جائے گی۔
ثقافتی مرکز کی سربراہ محترمہ سَمَر لاٹٹے نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے عارف نقوی کا تعارف کرایا اوربتایا کہ عا رف نقوی اردو انجمن برلن کے صدر ہی نہیں بلکہ بہترین مصنف بھی ہیں۔ ان کے افسانے جرمن زبان میں بھی دلوں کو چھوتے ہیں اور درد مندوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیز ان میں انسانیت کا پیغام ہے۔اس کے بعد انھوں نے مصنف عارف نقوی، فری یونیورسٹی کے ایتھنولوجی شعبے کے سابق صدر پروفیسر جاج فیفر، جرمن براڈکاسٹنگ اسٹیشن ڈائچے ویلے کے ایشیائی شعبے کے سابق صدر ڈاکٹر فریڈیمان شیلندر، ہندوستان سے آئے ہوئے مہمان دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رانا بہل، ہمبولٹ یونیورسٹی کے لسانیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر سنیل سین گپتا اور اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبرکو پریسیڈیم میں بیٹھنے کی دعوت دی۔
سب سے پہلے برلن کے مشہور بنگالی موسیقار دھیرج رائے نے اپنی خوبصورت آواز میں عارف نقوی کا ایک اردو گیت گا کر پیش کیا۔
جرمن براڈکاسٹنگ سروس ڈائچے ویلے کے ایشیائی شعبے کے سابق صدر ڈاکٹر فریڈیمان شیلندر نے عارف نقوی کی شخصیت اور ادبی کاوشوں پر اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ عارف نقوی سے ان کا دیرینہ تعلق رہا ہے۔ جب وہ ہمبولٹ یونیورسٹی میں طالبعلم تھے تو عارف نقوی ان کے استاد (اسسٹنٹ پروفیسر) تھے۔ اس کے بعد جب وہ تعلیم مکمل کرکے ریڈیو برلن انٹرنیشنل میں گئے، تو عارف نقوی بھی وہاں ایڈیٹر بن کر آئے اور انھوں نے پروگرام کو شروع کیا۔ شیلندر نے عارف نقوی کے مجموعے Zum Paradies auf Erden کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس مجموعے میں عارف نقوی کے وہ تجربات پنہاں ہیں جو انہوں نے ایک شاعر، صحافی، ہدایت کار، ریڈیو ڈرامہ آرٹسٹ اور تھیٹر کے میدان میں اور ہمبولٹ یونیورسٹی میں اردو ہندی زبانوں کے مدرس نیز ریڈیو برلن انٹرنیشنل کے مدیر اور کئی مشہور ہندوستانی اخبارات اور خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے نامہ نگار کی حیثیت سے جمع کئے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے بعد کے مشہور ہندوستانی ادیبوں اوردانشوروں کی طرح وہ بھی سماجی مسائل سے متاثر ہیں۔ مثلاً ان کی کہانیوں رکشا والا اور پہلا جوتا کے مرکز میں سماج کے پچھڑے ہوئے لوگ ہیں۔ شیلندر نے کہا کہ عارف نقوی ہندوستان کے اہم دانشوروں کی بائیں بازو کی لبرل روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں دونوں ممالک کی زندگی کا تجربہ ہے۔ وہ ایڈیٹر اور غیر ملکی نمائندے کی حیثیت سے اور عام جرمنوں کی طرح زندگی بتا کر ان کے کام کے طریقون اور زندگی کے مسائل سے واقف ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ امن عالم اور قوموں کے بیچ آشتی اورہم آہنگی کے لئے قلم اٹھایا ہے۔بیرونی اور اندرونی رشتوں کے مشاہدے سے عارف نقوی مغربی روزمرہ زندگی کے تضادوں کو دکھانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں جو عام ادب میں کم مقام پاتے ہیں۔ قوموں کے بیچ ہم آہنگی، انسانیت، سماجی مفاہمت، احترام ان کے ہنر اور اخلاقی قدروں میں پنہاں ہے۔
برلن کی فری یونیورسٹی کے ایتھنک شعبے کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر جارج فیفر نے کہا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ عارف نقوی ایک صوفی کی طرح ہیں اور امن، سلامتی، دوستی اور محبت کے متلاشی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں بھی مجھے یہی بات نظر آئی ہے۔ وہ درد مندوں کے ترجمان ہیں۔
ہندوستان سے آئے ہوئے دلی یونیورسٹی کے پروفیسر شری رانا بہل نے کہا کہ انھیں اتنی شاندار تقریب میں
شرکت سے بہت خوشی ہوئی ہے اور یہ جان کر نہایت مسرت ہے کہ عارف نقوی یہاں کی سماجی زندگی میں اردو کی اتنی خدمت کر رہے ہیں اور اتنی اچھی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ اردو زبان کے بارے میں انھوں نے یقین ظاہر کیا کہ اردو کو مٹانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ نہایت خوبصورت زبان ہے اورہمیشہ زندہ رہے گی۔ آج بالی ووڈ کی فلموں کے اسّی فیصدی گیتوں کی زبان اردو ہے۔ اردو کی مقبولیت اب پھر بڑھ رہی ہے۔
لسانیات کے پروفیسر ڈاکٹر سنیل سین گپتا نے بتایا کہ وہ عارف نقوی سے جرمنی آنے سے قبل سے واقف ہیں۔
عارف کی کہانیوں میں سماجی انصاف،امن اور انسانیت کا پیغام ہے۔ناردو انجمن برلن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے عارف نقوی کی جرمن زبان میں کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
عارف نقوی اردو کے بہترین ادیب ہیں جنھوں نے جرمن ادیبوں میں بھی اپنا مقام بنا لیا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی سب کہانیوں میں وطن سے رشتہ جھلکتا ہے۔ وہ دنیا کے چاہے جس مقام پر جائیں ان کا دل اپنے وطن میں رہتا ہے۔انور ظہیر نے عارف نقوی کی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے خاص طور سے کہانی رکشا والا کا حوالہ دیا، جو ایک سچّی کہانی ہے۔ جس میں ایک بیمار رکشا والا غربت کی وجہ سے اسپتال نہیں جا پاتا ہے۔ انور ظہیر نے کہا کہ عارف نقوی کی کہانی بیرک نمبر آٹھ میری سب سے پسندیدہ کہانی ہے۔وہ جیل میں قیدیوں کی افسوسناک حالت کو اس خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے میں خود جیل میں ہوں۔ افسانہ میری کہانی کو بھی انھوں دلچسپ بتایا۔ کہانی خود کشی پر تبصرہ کرتے ہوئے انور ظہیر نے کہا کہ اس میں سماج کی بے دردی کی منظر کشی کی گئی ہے جو آج ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی تعریف کی کہ کہانی میں جو نوجوان اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لئے ریل کی پٹری پر چلتا ہے وہی جب دیکھتا ہے کہ ایک بکری کا بچّہ پٹری پر آگیا ہے اورشتابدی ٹرین قریب آرہی ہے تو وہ اپنا غم بھول کر اس بکری کے بچّے کی زندگی کو بچا لیتا ہے۔
محترمہ نرگس یونتسا نے اپنے والد کی کتاب کے ایک افسانے ’ایک سے چار‘ کے ابتدائی چند ڈائلاگ پڑھکر سنائے، جن سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔عارف نقوی کا یہ افسانہ ۴۶۹۱ء میں پہلی بار جرمن زبان میں جی ڈی آر کے ادیبوں کی انجمن کے رسالے Neue Deutsche Literatur نیا جرمن ادب میں شائع ہوا تھا۔
نرگس نے اپنی پہلی جرمن نظم بھی پڑھکر سنائی جو انھوں نے اس سال مئی میں لکھنؤ میں ہوئی عالمی اردو کانفرنس سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔
ریڈیو آرٹسٹ محترمہ باربرا لیمکو نے عارف نقوی کا ایک افسانہ خود کشی جرمن زبان میں ڈرامائی انداز میں پڑھکر سنایا جس میں ایک نوجوان شتابدی ٹرین کے سامنے خودکشی کرنے کے لئے پٹری پر کھڑا ہے لیکن وہی نوجوان ایک بکری کے بچّے کی زندگی کو بچالیتا ہے۔
اس کے بعد لوگوں کی فرمائش پر عارف نقوی نے اپنا مضاحیہ افسانہ ’میری کہانی‘ موسیقار دھیرج رائے کے ساتھ مل کر جرمن زبان میں سنایا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ دھیرج رائے نے عارف نقوی کی چند نظمیں بھی جرمن زبان میں پیش کیں۔ انھوں نے عارف نقوی کی کئی نظمیں بنگالی زبان میں بھی ترجمہ کی ہیں۔
آخر میں عارف نقوی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اپنی کہانیوں کا جرمن زبان میں ترجمہ خود کیا تھا مگر بعد میں چند دوستوں نے جرمن ترجمے کی جلا کی جس کے لئے وہ اردو انجمن کے سکریٹری فائلباخ، اپنی طالبہ کاتھرینا پِنٹو، نیز نرگس یونِتسا، انگرڈ نقوی، یاسمین نقوی اور ڈرک یونِتسا کے مشکور ہیں۔نرگس اور انگرڈ نے خاص طور سے ان کے افسانوں کے مجموعے کو ترتیب دینے میں مدد دی ہے۔ جبکہ کتاب کے ٹائٹل کا صفحہ یاسمین نقوی کے ہنر کا ممنون ہے۔
پروفیسر یوآخیم اوسٹر ہیلڈ کا انھوں نے پیش لفظ لکھنے کے لئے اور محترمہ سمر لاٹٹے کا اتنی اچھی تقریب کرنے کے لئے شکریہ ادا کیا۔