مشاری الذايدی

داعش کے نئے، پرانے، چھوٹے اور بڑے سب ہی قاتلوں نے رمضان کے آخری عشرے کو سفاکیت کا سیزن بنا دیا۔ ہم تمام حادثات کو مربوط کریں تو ہمارے سامنے ایک ہی قماش کے قاتلوں کا ایک سا جرم کھڑا نظر آئے گا۔ ایک سیاہ دماغ جو ان سب کو چلا رہا ہے یا زمین کے نرے احمقوں کی جانب سے جرائم کے ذریعے عطیات کی درخواستیں وصول کررہا ہے۔
یہ کون ہیں .. امریکی شہر اورلینڈو کا ضعیف العقل عمر متین ایک افغانی نژاد امریکی جس نے 19 رمضان کو اورلینڈو کے ایک نائٹ کلب میں آنے والوں کو سرد خون کے ساتھ قتل کردیا ، اور پھر اس کارروائی کو بطور تحفہ داعش کی نذر کردیا۔ ظاہر ہوا کہ متین نے اس مرتبہ اپنے جرم کو مذہبی لبادہ اوڑھایا۔
اس کے کچھ روز بعد استنبول میں اتاترک ایئرپورٹ کا جرم پیش آیا۔ اس مرتبہ داعش کے غُل غپاڑے کا شکار ایئرپورٹ پر موجود مختلف ملکوں کے درجنوں شہری بنے۔ ان میں ایک فلسطینی خاتون اور تین سعودی مرد بھی شامل ہیں۔
اس کے بعد کویت نے داعش سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ کو پکڑنے کا اعلان کیا جو ایک شیعوں کی ایک مسجد اور وزارت داخلہ کے دفتر کو نشانہ بنانے والے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان میں ایک مجرم کویتی ماں بھی شامل ہے ، گروہ کے ارکان کے پکڑے جانے کے بعد اس عورت اور اس کے داعشی بیٹے کو شام کے شہر الرقہ سے لایا گیا۔
اس کے بعد بغداد کے علاقے کرادہ میں داعش نے ہیبت ناک جرم کا ارتکاب کیا۔ کارروائی میں عراقی شہریوں کی خون ریز ہلاکتوں نے ہلا کر رکھ دیا۔ تقریبا 389 بے قصور افراد کے مارے جانے کے بعد عراقی وزارت داخلہ جرم کی سنگینی کے سبب مستعفی ہوگئے۔ بغداد حکومت کے مطابق عراقی وزارت انصاف نے داعشی ہونے کے الزام میں 5 افراد کو سزائے موت دینے پر عمل درامد کیا۔
پھر آخر میں بُرائی نے سعودی عرب کا رُخ کیا۔ ایک دن اور ایک رات کے اندر داعش کے قاتلوں نے مشرق میں قطیف سے لے کر مغرب میں جدہ تک اور پھر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کو نشانہ بنایا۔ مسجد نبوی کے قریب دھماکے کے ذریعے داعشی خبیث نے 4 سیکورٹی اہل کاروں کو شہید کیا جب کہ دیگر کچھ زخمی ہوئے۔
جدہ میں مقیم ایک 36 سالہ پاکستانی ڈرائیور گلزار خان نے فقیہ ہسپتال اور امریکی قونصل خانے کے نزدیک خود کو بارودی بیلٹ کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیا۔
یقینا کویت ، بغداد اور یہاں تک کہ اورلینڈو کی کارروائیاں سعودی عرب کی تین کارروائیوں قطیف ، جدہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ ایک ہی قرینے میں آتی ہیں۔
یہ قرینہ شام اور عراق میں کاری ضربوں کی وجہ سے داعش تنظیم کے اندر پیدا ہونے والی بوکھلاہٹ اور کشیدگی ہے۔ ساتھ ہی تنظیم کے خلاف بین الاقوامی اتحادوں میں اضافہ بھی اسی سیاق میں اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ داعش کی جانب سے سعودی عرب پر وار کرنے کی خصوصی کوشش کی جا رہی ہے کیوں کہ داعشیوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل عربی کتاب "إدارة التوحش" کے لکھاری کے مطابق مملکت سعودی عرب ، داعش کا پہلا اور مرغوب ترین ہدف ہے۔
یہ چیز داعش کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بغداد حکومت اور امریکی پالیسی پر تنقید کی تردید نہیں کرتی۔ تاہم ایک دوسری بحث ہے جس پر بات کی جائے گی۔
بدقسمتی سے ، داعش کے جرائم ہمارے ساتھ رہیں گے جب تک کہ ان جرائم کے وجود کے اسباب کو نہ ختم کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں داعش ، اس سے پہلے القاعدہ ، اس سے پہلے الظواہری اور ان سب سے پہلے سید قطب کی تنظیم کے جنم لینے کا بنیادی سبب درحقیقت تربیتی فکری شکست و ریخت اور بوسیدگی ہے۔ یہ سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے.. سب کی۔

*بشکریہ روزنامہ "الشرق الاوسط" (لندن)