منظور پروانہ
آزادیئ ہند کے بعد ہندوستان میں اُردو زبان پر ایسے ایسے ظلم ہوئے کہ اگر یہ سخت جان نہ ہوتی تو اپنی موت آپ مرجاتی۔ اس زبان پر ایسے ایسے تیر چلائے گئے کہ خدا کی پناہ۔ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ اردو بٹوارے کی زبان ہے۔ اردو پاکستان کی زبان ہے۔ جیسے الزامات اس زبان پر عائد کئے گئے۔ فرقہ پرستوں نے فرقہ پرستی کے نشے میں چور ہوکر اسے دیش نکالا دینے کے لئے نعرہ لگایا۔ ”ہندی، ہندو، ہندوستان، اردو جائے پاکستان۔ مگر جب اردو کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر اس کے شیدائیوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اور ہر الزام کا بھرپور بلکہ منھ توڑ جواب دیا گیا تو ان اردو دشمنوں نے اس کے خلاف دوسرا مورچہ کھولا۔ جس میں جانے انجانے اپنے اور بیگانے سبھی شامل ہو گئے۔ اس گروہ نے پوری تیاری کے ساتھ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے یہ باور کرانا شروع کیا کہ اردو کا املا بہت سخت ہے اور یہ مطالبہ کرنا شروع کیا کہ اسے سہل کیا جائے۔ اس کا رسم الخط غیر ملکی ہے اسے تبدیل کیا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا کہ اس زبان کے ہم آواز حروف کو ختم کیا جائے۔ مگر یہاں پر بھی فرقہ پرستوں کو منھ کی کھانی پڑی۔ ہر سمت سے اس کی مخالفت ہوئی۔ اور اردو کے حق میں کوئی نہ کوئی تحریک چلتی رہی۔ مگر فرقہ پرستوں نے بھی ہار نہ مانی اور انھوں نے بہت خاموشی کے ساتھ اردو کا رشتہ روزی۔ روٹی سے کاٹ دیا۔ اس کے باوجود بھی اردو والے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔ آخرش اردوو مخالف گروپ نے ایک نیا فارمولہ تیار کیا۔ جس کے مطابق حکومت نے اردو والوں کو ”اردو اکادمیوں“کاکلوروفارم پیش کرکے مدہوش کر دیا۔ اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ اردو کی بقا کے لئے سرکار کام کر رہی ہے اب اردو والوں کو اس کی فکر چھوڑ دینا چاہئے۔ مگر ہوایہ کہ اردو روز بروز زوال پذیر ہو رہی ہے۔ چند مفاد پرست اس کے نام پر اپنی سیاسی روٹی سینک رہے ہیں اور اپنے منفعت کے لئے کام کر رہے ہیں اور جو اردو دشمن ہیں وہ برابر کسی نہ کسی طرح اس کی ترقی میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور ہر طرح سے اس پر اپنے حملے جاری رکھے ہیں۔ اردو کی بقا، ترقی کے لئے جو بھی حکم نامے جاری ہوتے ہیں وہ صرف کاغذ پر ہی رہ جاتے ہیں عمل میں نہیں آپاتے وجہ صاف ہے کہ عملی جامہ پہنانے کے ذمہ داران آج بھی اردو دشمنی کے رنگ میں رنگے ہیں۔
اس کا ایک تلخ تجربہ مجھے بھی ہوا۔ پٹنہ میں ہونے والی ایک کانفرس میں شرکت کے لئے میں جا رہا تھا۔ ٹرین میں کچھ سکون تھا لہٰذا میں نے اخبار کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ میرے سامنے والی برتھ پر ایک کھدر دھاری مہاشے براجمان تھے انھوں نے مجھے اردو کا اخبار پڑھتے دیکھ کر طنزیہ لہجہ میں کہا۔
”کیا آپ راشٹریہ بھاشا نہیں جانتے۔؟ جو آپ اردو کا اخبار پڑھ رہے ہیں۔“
”نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں راشٹریہ بھاشا ہی نہیں دوسری زبانیں بھی جانتا ہوں۔ مگر مادری زبان کا لطف الگ ہے اس لئے اردو اخبار پڑھنا اچھا لگتا ہے۔“ میں نے کہا۔
”ہاں! کیوں نہیں؟ اردو تو مسلمانوں کی زبان ہے شاید آپ بھی مسلمان ہیں۔ آپ ہندی کہاں پڑھیں گے۔“ انھوں نے کہا۔
میں نے ان کی اس بات پر اخبار الگ رکھ دیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا۔
مانیہ ور! میں آپ سے زیادہ ہندی پڑھتا اور لکھتا ہوں۔ دفتر کا سارا کام راشٹریہ بھاشا میں کرتا ہوں۔ کسی زبان کو کسی مذہب سے جوڑ کر آپ اس زبان کی توہین کرتے ہیں۔ جہاں تک اردو زبان کا سوال ہے وہ صرف زبان نہیں بلکہ ایک مشترکہ تہذیب ہے اس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کا کوئی فرق نہیں۔ سبھی اردو کے شیدائی ہیں سب نے مل کر اس کو فروغ دیا ہے۔ جنگ آزادی میں ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ اور سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ جیسے اشعار کو پڑھنے والے صرف مسلمان نہیں تھے بلکہ پورا ہندوستان اس میں شامل تھا۔ اس زبان کے ادیبوں، شاعروں کی ایک بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہے۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہ ہو تو میں آپ کو کچھ نام یاد دلادوں۔
”دو چار نام سے کیا ہوتا۔؟“ انھوں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو آزادی کے پہلے سے اب تک چلا آرہا ہے۔ میں نے کہا۔ سنئے۔
آنند نرائن ملا، آنند موہن گلزار، بشیشر پردیب، بشمبھر ناتھ پانڈے، بال مکند عرش، بلراج کومل، پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، رتن سنگھ، رام لعل، رام رکھا چڈھا خوشتر گرامی، گوپی چند نارنگ، گیان چند جین، جگن ناتھ آزاد، دیاشنکر نسیم، ڈی۔اے۔ ہیریسن قربان، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، منشی نول کشور، کنہیا لال کپور، فکر تو نسوی، کالی داس گپتا رضا، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، مالک رام، کرشن چند، من موہن تلخ، کرشن موہن، گیان سنگھ شاطر، کرشن بہاری نور، پنڈت ہنومان پرساد عاجز ماتوی، راجیش کھرے، گوتم مترا، جوگیندر پال، تلوک چند محروم، کرشن لال کالرا،عابد پیشاوری، نانک چند عشرت، لبھورام جوش، سردار پنچھی، چرن سنگھ بشر، خوشبیر سنگھ شاد، سنجے مصرا شوق، رام پرکاش بیخود، وغیرہ یہ چند نام ہیں جو میں نے آپ کو بتائے۔ اگر پوری فہرست مرتب کی جائے تو ہندوستان گیر نہیں عالم گیر شہرت یافتہ غیر مسلم اردو داں لوگوں کی فہرست کا فی طویل ہوگی ہاں اگر بات سیاسی لوگوں کی کریں تو جواہر لعل نہرو، اندر کمار گجرال، من موہن سنگھ جیسے لوگوں کے نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اور آپ ہیں کہ اردو کو محض مسلمانوں کی زبان بتا رہے ہیں۔ ہاں آپ کی بات سچ ہو سکتی ہے۔ کہ آپ ان تمام لوگوں کو جن کا ذکر میں نے کیا ہے مسلمان مان لیں۔ اگر آپ میں اتنی اخلاقی جرأت ہو تو اعلان کر دیں کہ یہ سبھی اردو کے ادیب اور شاعر میں لہٰذا یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن یہ آپ کے بس کا کام نہیں۔آپ جیسے لوگ تو صرف کیچڑ اچھالنا اور منافرت پھیلانا جانتے ہیں۔ آپ سے امن و آشتی کے مرہم کی توقع فضول ہے۔
میری اس بات کو سن کر مہاشے ہونقوں کی طرح میرا منھ تکتے رہے۔ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس لئے وہ خاموش تو ہوگئے مگر مجھے ان کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ:
مردِ ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر