ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

9 مئی 2020 کو بالی ووڈ کے نغمہ نگار جاوید اختر صاحب نے اچانک اپنے ٹیوٹر پر اذان سے متعلق ایک پیغام ارسال کیا، جس پر جہاں مسلم مخالف عناصر خوشی کا اظہار کررہے ہیں وہیں علماء کرام، دانشورانِ قوم اور مسلمانانِ ہند اُن کے اس پیغام پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔ آئیے سب سے پہلے ان کے پیغام پر نظر ڈالیں: ”ہندوستان میں تقریباً پچاس سالوں تک لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا حرام تھا، پھر یہ حلال ہوگیا اور اس کا کوئی اختتام نہیں ہے، لیکن یہ ختم ہونا چاہئے۔ اذان ٹھیک ہے، لیکن لاؤڈاسپیکر سے اذان دینے سے دوسروں کو پریشانی ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ کم سے کم اس مرتبہ وہ سب خود ایسا کریں گے۔“

جاوید اختر صاحب سے پہلا سوال ہے اس وقت ملک کورونا وبائی مرض میں مبتلا ہے، ملک کی بڑی طاقت اس مرض سے حفاظت کے لئے لگی ہوئی ہے، لاکھوں افراد بے روزگار ہوکر اپنے گھروں کو جانے کے لئے بے چین ہیں اورملک کے اقتصادی حالات بد سے بد تر ہورہے ہیں تو ایسے وقت میں اس موضوع کو چھیڑنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟

دوسرا سوال ہے کہ ملک میں کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باجود حکومت نے شراب کی دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی، جس کے نتیجہ میں جو لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑائی گئیں اس پر آپ نے ایک لفظ بھی کہنے کی تکلیف کیوں گوارا نہیں کی؟ حالانکہ ہر خاص وعام جانتا ہے کہ ہندوستان میں فروخت ہونے والی شراب عام لوگوں کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ شراب نہ صرف پینے والوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ وہ اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی متعدد پہلؤوں سے بھی ملک کے پورے معاشرہ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

تیسرا سوال ہے کہ آپ نے صرف اذان کا ہی تذکرہ کیوں کیا جبکہ تمام ہی مذاہب کی عبادت گاہوں اور پروگراموں میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں سے اعلانات کی اجازت اور اذان دینے پر روک آزادیئ مذہب کے سراسر خلاف ہے۔

چوتھا سوال ہے کہ اذان میں صرف دو منٹ ہی لگتے ہیں، اس سے کئی ہزار گنا شور وآلودگی فیکٹریوں، کارخانوں، مشینوں، گاڑیوں اور ٹرینوں سے ہوتی ہے، مگر ان سب چیزوں کو پس پشت ڈال کر شرپسند افراد کی طرف سے صرف لاؤڈاسپیکر پر اذان کی بات اٹھائی جاتی ہے اور حال ہی میں چند افراد نے ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلانے کی غر ض سے اس موضوع کو دوبارہ اٹھایا مگر حکومت اور عدالت کی طرف سے لاؤڈاسپیکر پر اذان پر روک نہ لگانے پر ملک مخالف طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے بعد اس موضوع پر مزید آپ کو لکھنے کی کیوں ضرورت پیش آگئی؟

پانچواں سوال ہے کہ اذان میں صرف بھلائی اور اچھائی کے کلمات ہی کہے جاتے ہیں۔ اذان میں سب سے پہلے چار مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہہ کر اللہ تعالیٰ (God) کے سب سے بڑے ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے معبود حقیقی اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی دو دو مرتبہ شہادت دی جاتی ہے۔ پھر دو دو مرتبہ ”حی علی الصلاۃ“ کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے، اور پھر دو دو مرتبہ ”حی علی الفلاح‘ کہہ کر بتایا جاتا ہے کہ اصل کامیابی نماز میں ہے۔ اذان کے اختتام سے قبل دو مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہہ کر ایک مرتبہ”لا الہ الا اللہ“ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اذانِ فجر میں ”الصلاۃ خیر من النوم“ (نماز نیند سے بہتر ہے) کہہ کر مسلمانوں کو صبح سویرے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ غرضیکہ اذان میں نہ کسی مذہب یا کسی شخص پر کوئی تنقید ہے، نہ یہ کوئی سیاسی ہتھکنڈا ہے بلکہ صرف اور صرف خالق کائنات، جس کو عربی میں اللہ، انگریزی میں God، فارسی میں خدا اور ہندی میں بھگوان کہتے ہیں، کی تعریف کی جاتی ہے، اس کے معبود حقیقی اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دے کر مسلمانوں کو نماز کی طرف بلایا جاتا ہے تو پھر لاؤڈاسپیکر پر اذان دینے کو بڑا مسئلہ بنانے کی کیوں ضرورت پیش آگئی؟

چھٹا سوال ہے کہ آپ نے اپنے ٹیوٹ میں جو بات کہی ہے کہ ہندوستان میں تقریباً پچاس سال تک لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا حرام تھا، پھر حلال ہوگیا۔ ہندوستانی مسلمان جاننا چاہے گا کہ وہ کونسے پچاس سال تھے جن میں لاؤڈاسپیکر پر اذان دینے کو حرام قرار دیا گیا؟ کیا کسی چیز کا استعمال نہ کرنا حرام ہونے کی دلیل ہے؟ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکر کی ایجاد 1924 میں ہوئی تھی، ابتدا میں اس کا استعمال نہایت محدود تھا، اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ شروع میں نہ صرف مساجد بلکہ کسی بھی مذہبی عبادت گاہ میں اس کا استعمال نہیں ہوتا تھا، نیز عام لوگوں کے پاس اس کی تحقیق بھی نہیں تھی کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔ اس وجہ سے ابتدا میں بعض علماء نے اس کے استعمال سے بچنے کو ضرور کہا مگر کسی بڑے تعلیمی ادارے کی جانب سے لاؤڈاسپیکر پر اذان دینے کے حرام ہونے کا فتوی جاری نہیں کیا گیا۔ جیسے جیسے لاؤڈاسپیکر کے متعلق تحقیق سامنے آتی چلی گئی اور اس کا استعمال شروع ہوتا گیا، دیگر عبادت گاہوں کے ساتھ مساجد میں بھی آہستہ آہستہ اس کا استعمال شروع ہوتا گیا۔ اذان کا مقصد مسلمانوں کو نماز کے قیام کے وقت قریب آنے کی اطلاع دینا ہوتا ہے۔ پہلے دنیا میں گاڑیوں، فیکٹریوں اور مشینوں کے شوروغل نہ ہونے کی وجہ سے اونچی جگہ پر دی گئی اذان دور دور تک سنائی دے جاتی تھی۔ جیسے جیسے دنیا میں لوگ موجودہ طرز کے بند رہائشی مکانوں اور دفتروں میں قید رہنے لگے اور دنیا میں شور وغل بڑھتا گیا، مساجد میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال بھی شروع ہوتا گیا۔ اب صورت حال ایسی ہوگئی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر اذان دینے سے اذان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے کیونکہ اکثر علاقوں میں شور وغل کی وجہ سے لاؤڈاسپیکر کے بغیر دی جانے والی اذان سنائی بھی نہیں دیتی ہے۔ اس وجہ سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دی جاتی ہے۔ ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ ”دارالعلوم دیوبند“ میں غالباً جاوید اختر صاحب کی پیدائش سے قبل سے ہی لاؤڈاسپیکر پر اذان دی جارہی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھانے کے متعلق ضرور اختلاف رہا ہے، مگر لاؤڈ اسپیکر پر اذان کے متعلق اختلاف صرف ابتدائی مرحلہ کا تھا، جیسے ہی لاؤڈ اسپیکر کے متعلق تحقیق سامنے آگئی تو ضرورت کے مطابق اس کا استعمال بھی شروع ہوگیا۔ مگر آج تک اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کے استعمال کو ضروری نہیں قرار دیا گیا ہے۔ آج بھی بے شمار مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاتی ہے، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہاں کے علماء یا لوگ لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کو حرام سمجھتے ہیں۔یہ بات ایسی ہی ہے کہ جب انگریزوں نے ہندوستان میں چائے شروع کی تو لوگ حتی کہ پچھڑی جاتی کے لوگ بھی چائے سے دور بھاگتے تھے، بھوکا شخص بھی مفت میں چائے پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا، یہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے پنڈت یا پادری یا علماء نے چائے پینے کو حرام قرار دیا تھا، بلکہ چائے کے متعلق لوگوں کو معلومات نہیں تھی، جیسے جیسے چائے کے متعلق تحقیق سامنے آتی چلی گئی لوگ اس کا استعمال شروع کرتے چلے گئے، اب حال یہ ہوگیا ہے کہ چائے کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے، لیکن پھر بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جو آج بھی چائے نہیں پیتے ہیں، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ چائے کو حرام سمجھتے ہوں۔

جاوید اختر صاحب سے چھ سوال کرنے کے بعد اب میں عام مسلمانوں سے مخاطب ہوں کہ پہلی ہجری میں مدینہ منورہ میں مسلم معاشرہ کے قیام سے ہی فرض نمازوں کے لئے اذان کو اسلامی شعار ضرور قرار دیا گیا ہے، لیکن اذان کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ضروری نہیں ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کا مقصد ضرور پورا ہوتا ہے، مگر ہم ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں رہتے ہیں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ مقیم ہیں، اس لئے ہمیں اپنے ہم وطنوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اس لئے اذان کے لئے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو زیادہ نہ رکھیں کیونکہ مذہب اسلام میں میانہ روی ہے شدت پسندی نہیں۔